Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 76
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَ اِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِیْلًا
وَاِنْ : اور تحقیق كَادُوْا : قریب تھا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ : کہ تمہیں پھسلا ہی دیں مِنَ : سے الْاَرْضِ : زمین (مکہ) لِيُخْرِجُوْكَ : تاکہ وہ تمہیں نکال دیں مِنْهَا : یہاں سے وَاِذًا : اور اس صورت میں لَّا يَلْبَثُوْنَ : وہ نہ ٹھہرپاتے خِلٰفَكَ : تمہارے پیچھے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا
اور وہ تو چاہتے تھے کہ گھبراویں تجھ کو اس زمین سے تاکہ نکال دیں تجھ کو یہاں سے اور اس وقت نہ ٹھہریں گے وہ بھی تیرے پیچھے مگر تھوڑا،
(آیت) وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ۔ استفزاز کے لفظی معنی قطع کرنے کے ہیں یہاں مراد نبی کریم ﷺ کو اپنے مستقر مکہ یا مدینہ سے نکال دینا ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ قریب تھا کہ یہ کفار آپ کو اپنی زمین سے نکال دیں اور اگر وہ ایسا کرلیتے تو اس کی سزاء ان کو یہ ملتی کہ وہ بھی آپ کے بعد زیادہ دیر اس شہر میں نہ رہ پاتے یہ ایک دوسرے واقعہ کا بیان ہے اور اس کی تعیین میں بھی دو روایتیں منقول ہیں ایک واقعہ مدینہ طبیہ کا ہے کہ یہود مدینہ ایک روز رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے ابو القاسم ﷺ اگر آپ اپنی نبوت کے دعوے میں سچے ہیں تو آپ کو چاہئے کہ ملک شام میں جا کر رہیں کیونکہ ملک شام ہی محشر کی زمین ہے اور وہی انبیاء (علیہم السلام) کی زمین ہے رسول کریم ﷺ پر ان کے کلام کا کچھ اثر ہوا اور غزوہ تبوک کے وقت جو ملک شام کا سفر ہوا تو آپ کا قصد یہ تھا کہ ملک شام کو اپنا ایک مستقر بنائیں مگر یہ آیت نازل ہوئی وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ جس میں آپ کو اس ارادہ سے روک دیا گیا مگر ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کر کے ناقابل اطمینان قرار دیا ہے۔
اور اس آیت کا مصداق ایک دوسرا واقعہ بتلایا ہے جو مکہ مکرمہ میں پیش آیا اور اس سورت کا مکی ہونا اس کے لئے قوی قرینہ ہے اور وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ کفار قریش نے رسول کریم ﷺ کو مکہ مکرمہ سے نکالنے کا ارادہ کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ اور اس میں کفار مکہ کو اس پر تنبیہ فرمائی کہ اگر وہ رسول کریم ﷺ کو مکہ سے نکال دیں گے تو پھر خود بھی مکہ میں دیر تک چین سے نہ بیٹھ سکیں گے ابن کثیر نے اسی واقعہ کا مصداق آیت ہونا راجح قرار دیا ہے اور پھر بتلایا کہ قرآن کریم کی یہ وعید بھی کفار مکہ نے کھلی آنکھیں دیکھ لی کہ جب رسول کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی تو مکہ والے ایک دن بھی مکہ میں چین سے نہیں بیٹھ سکے صرف ڈیڑھ سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو میدان بدر میں جمع کردیا جہاں ان کے ستر سردار مارے گئے اور ان کی قوت ٹوٹ گئی پھر غزوہ احد کے آخری نتیجہ میں ان پر مزید ہیبت طاری ہوگئی اور غزوہ احزاب کے آخری معرکہ نے تو ان کی کمر ہی توڑ دی اور ہجرت کے آٹھویں سال رسول کریم ﷺ نے پورا مکہ مکرمہ فتح کرلیا۔
Top