Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 71
یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْ١ۚ فَمَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ فَاُولٰٓئِكَ یَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
يَوْمَ : جس دن نَدْعُوْا : ہم بلائیں گے كُلَّ اُنَاسٍ : تمام لوگ بِاِمَامِهِمْ : ان کے پیشواؤں کے ساتھ فَمَنْ : پس جو اُوْتِيَ : دیا گیا كِتٰبَهٗ : اسکی کتاب بِيَمِيْنِهٖ : اس کے دائیں ہاتھ میں فَاُولٰٓئِكَ : تو وہ لوگ يَقْرَءُوْنَ : پڑھیں گے كِتٰبَهُمْ : اپنا اعمالنامہ وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور نہ وہ ظلم کیے جائیں گے فَتِيْلًا : ایک دھاگے کے برابر
جس دن ہم بلائیں گے ہر فرقہ کو ان کے سرداروں کے ساتھ سو جس کو ملا اس کا اعمال نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں سو وہ لوگ پڑھیں گے اپنا لکھا اور ظلم نہ ہوگا ان پر ایک تاگے کا
خلاصہ تفسیر
(اس دن کو یاد کرنا چاہئے) جس روز ہم تمام آدمیوں کو ان کے نامہ اعمال سمیت (میدان حشر میں) بلاویں (اور نامہ اعمال اڑا دیئے جاویں گے پھر کسی کے داہنے ہاتھ اور کسی کے بائیں ہاتھ میں آجاویں گے) پھر جس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جاوے گا (اور یہ اہل ایمان ہوں گے) تو ایسے لوگ اپنا نامہ اعمال (خوش ہو کر) پڑھیں گے اور ان کا ذرا نقصان نہ کیا جاوے گا (یعنی ان کے ایمان اور اعمال کا ثواب پورا پورا ملے گا ذرا کم نہ ہوگا خواہ زیادہ مل جائے اور عذاب سے نجات بھی ہوگی خواہ اول ہی یا گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد) اور جو شخص دنیا میں (راہ نجات دیکھنے سے) اندھا رہا تو وہ آخرت میں بھی (منزل نجات تک پہنچنے سے) اندھا رہے گا اور (بلکہ وہاں دنیا سے بھی) زیادہ گم کردہ راہ ہوگا (کیونکہ دنیا میں تو گمراہی کا علاج ممکن تھا وہاں یہ بھی نہ ہو سکے گا یہ وہ لوگ ہوں گے جن کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا)

معارف و مسائل
(آیت) يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمْ اس آیت میں لفظ امام بمعنی کتاب ہے جیسا کہ سورة یسین میں ہے (آیت) وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ اس میں امام مبین سے مراد واضح کتاب ہے اور کتاب کو امام اس لئے کہا جاتا ہے کہ بھول چوک اور اختلاف کے وقت کتاب ہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جیسے کسی امام مقتدا کی طرف رجوع کیا جاتا ہے (قرطبی)
اور ترمذی کی حدیث بروایت ابوہریرہ ؓ (جس کو ترمذی نے حسن غریب کہا ہے) اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام سے مراد اس آیت میں کتاب ہے الفاظ حدیث کے یہ ہیں
يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمْ قال یدعی احدہم فیعطی کتابہ بیمینہ (الحدیث بطولہ) آیت يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمْ کی تفسیر میں خود رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک شخص کو بلایا جائے گا اور اس کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دے دیا جائے گا۔
اس حدیث سے یہ بھی متعین ہوگیا کہ امام بمعنے کتاب ہے اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کتاب سے مراد نامہ اعمال ہے اسی لئے خلاصہ تفسیر از بیان القرآن میں اس کا ترجمہ نامہ اعمال سے کردیا گیا ہے اور حضرت علی مرتضی ؓ اور مجاہد وغیرہ مفسرین سے یہاں لفظ امام کے معنی مقتدا اور پیشوا کے بھی منقول ہیں کہ ہر شخص کو اس کے مقتدا و پیشوا کا نام لے کر پکارا جائے خواہ وہ مقتدا و پیشوا انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے نائب مشائخ و علماء ہوں یا گمراہی اور معصیت کی طرف دعوت دینے والے پیشوا (قرطبی)
اس معنے کے لحاظ سے مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ میدان حشر میں ہر شخص کو اس کے مقتدا اور پیشوا کے نام سے پکارا جائے گا اور سب کو ایک جگہ جمع کردیا جائے گا مثلا متبعین ابراہیم ؑ متبعین موسیٰ و عیسیٰ (علیہم السلام) و متبعین محمد مصطفے ﷺ پھر ان کے ذیل میں ممکن ہے کہ ان متبعین کے بلاواسطہ مقتداؤں کا نام بھی لیا جائے۔
نامہ اعمال
قرآن مجید کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال صرف کفار کو دیا جائے گا جیسا کہ ایک آیت میں ہے (آیت) اِنَّهٗ كَانَ لَا يُؤ ْمِنُ باللّٰهِ الْعَظِيْمِ اور ایک دوسری آیت میں ہے (آیت) اِنَّهٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ يَّحُوْرَ پہلی آیت میں صراحۃ ایمان کی نفی کی گئی ہے اور دوسری آیت میں انکار آخرت مذکور ہے وہ بھی کفر ہی ہے اس تقابل سے معلوم ہوا کہ داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال اہل ایمان کو دیا جائے گا خواہ متقی ہوں یا گناہ گار مومن اپنے نامہ اعمال کو خوشی کے ساتھ لے گا بلکہ دوسروں کو بھی پڑھوائے گا یہ خوشی ایمان کی اور عذاب ابدی سے نجات کی ہوگی گو بعض اعمال پر سزا بھی ہوگی۔
اور قرآن کریم میں نامہ اعمال داہنے یا بائیں ہاتھ میں دیئے جانے کی کیفیت مذکور نہیں لیکن بعض احادیث میں تطایرالکتب کا لفظ آیا ہے (رواہ احمد عن عائشہ ؓ مرفوعا) اور بعض روایات حدیث میں ہے کہ سب نامہ اعمال عرش کے نیچے جمع ہوں گے پھر ایک ہوا چلے گی جو سب کو اڑا کر لوگوں کے ہاتھ میں پہنچا دے گی کسی کے داہنے ہاتھ میں (اخرجہ العقیلی عن انس مرفوعا) بیان القرآن از روح المعانی)
Top