Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 52
یَوْمَ یَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَ تَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا۠   ۧ
يَوْمَ : جس دن يَدْعُوْكُمْ : وہ پکارے گا تمہیں فَتَسْتَجِيْبُوْنَ : تو تم جواب دو گے (تعمیل کروگے) بِحَمْدِهٖ : اسکی تعریف کے ساتھ وَتَظُنُّوْنَ : اور تم خیال کروگے اِنْ : کہ لَّبِثْتُمْ : تم رہے اِلَّا : صرف قَلِيْلًا : تھوڑی دیر
جس دن تم کو پکارے گا پھر چلے آؤ گے اس کی تعریف کرتے ہوئے اور اٹکل کرو گے کہ دیر نہیں لگی تم کو مگر تھوڑی۔
معارف و مسائل
(آیت) يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ لفظ يَدْعُوْكُمْ دعاء سے مشتق ہے جس کے معنے آواز دے کر بلانے کے ہیں اور معنے یہ ہیں کہ جس روز اللہ تعالیٰ تم سب کو محشر کی طرف بلائے گا اور یہ بلانا بواسطہ فرشتہ اسرافیل کے ہوگا کہ جب وہ دوسرا صور پھونکے گے تو سب مردے زندہ ہو کر میدان حشر میں جمع ہوجائیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زندہ ہونے کے بعد سب کو میدان حشر میں جمع کرنے کے لئے آواز دی جائے (قرطبی)
اور حدیث میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز تم کو تمہارے اپنے اور باپ کے نام سے پکارا جائے گا اس لئے اپنے نام اچھے رکھا کرو (بیہودہ ناموں سے پرہیز کرو) (قرطبی)
محشر میں کفار بھی اللہ کی حمد وثناء کرتے اٹھیں گے
فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ۔ استجابت کے معنی کسی کے ہلانے پر حکم کی تعمیل کرنے اور حاضر ہوجانے کے ہیں معنے یہ ہیں کہ میدان حشر میں جب تم کو بلایا جاوے گا تو تم سب اس آواز کی اطاعت کرو گے اور جمع ہوجاؤ گے بحمدہ یہ تستجیبون کی ضمیر فاعل کا حال ہے بمعنے حامدین مراد یہ ہے کہ اس میدان میں آنے کے وقت تم سب کے سب اللہ کی حمد وثنا کرتے ہوئے حاضر ہوگے
اس آیت کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مومن و کافر سب کا یہی حال ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اٹھیں گے کیونکہ اس آیت میں اصل خطاب کفار ہی کو ہے انھیں کے متعلق یہ بیان ہو رہا ہے کہ سب حمد کرتے ہوئے اٹھیں گے ائمہ تفسری میں حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا کہ کفار بھی اپنی قبروں سے نکلتے وقت سبحانک وبحمدک کے الفاظ کہتے ہوئے نکلیں گے مگر اس وقت کا حمد وثناء کرنا ان کو کوئی نفع نہیں دے گا (قرطبی) کیونکہ یہ لوگ جب مرنے کے بعد زندگی دیکھیں گے تو غیر اختیاری طور پر ان کی زبان سے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے الفاظ نکلیں گے وہ کوئی ایسا عمل نہیں ہوگا جس پر جزاء و مرتب ہو
اور بعض حضرات مفسرین نے اس حال کو مومنیں کے لئے مخصوص بتلایا ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ کفار کے متعلق تو قرآن کریم میں یہ ہے کہ جب وہ زندہ کئے جاویں گے تو یہ کہیں گے (آیت) يٰوَيْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا (اے افسوس ہمیں کس نے ہماری قبر سے زندہ کر اٹھایا ہے) اور دوسری آیت میں ہے کہ یہ کہیں گے (آیت) يّٰحَسْرَتٰى عَلٰي مَا فَرَّطْتُّ فِيْ جَنْبِ اللّٰهِ (یعنی اے حسرت و افسوس اس پر کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں بڑی کوتاہی کی ہے)
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہوسکتا ہے کہ شروع میں سب کے سب حمد کرتے ہوئے اٹھیں بعد میں جب کافروں کو مومنین سے الگ کردیا جاوے گا جیسا کہ سورة یسین کی آیت میں ہے (آیت) وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ (اے مجرموتم آج سب الگ ممتاز ہو کر جمع ہوجاؤ) اس وقت ان کی زبانوں سے وہ کلمات بھی نکلیں گے جو آیات مذکورہ میں آئے ہیں اور یہ بات قرآن وسنت کی بیشمار تصریحات سے معلوم اور ثابت ہے کہ محشر کے مواقف مختلف ہوں گے ہر موقف میں لوگوں کے حال مختلف ہوں گے امام قرطبی نے فرمایا کہ حشر میں اٹھنے کی ابتدا بھی حمد سے ہوگی سب کے سب حمد کرتے ہوئے اٹھیں گے اور سب معاملات کا خاتمہ بھی حمد پر ہوگا جیسا کہ ارشاد ہے (آیت) وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بالْحَقِّ وَقِيْلَ الْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (یعنی سب اہل محشر کا فیصلہ حق کے مطابق کردیا گیا ہے اور یہ کہا گیا کہ حمد و شکر ہے اللہ رب العالمین کا)۔
Top