Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 49
وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں ءَاِذَا : کیا۔ جب كُنَّا : ہم ہوگئے عِظَامًا : ہڈیاں وَّرُفَاتًا : اور ریزہ ریزہ ءَاِنَّا : کیا ہم یقینا لَمَبْعُوْثُوْنَ : پھر جی اٹھیں گے خَلْقًا : پیدائش جَدِيْدًا : نئی
اور کہتے ہیں کہ جب ہم ہوجائیں ہڈیاں اور چورا چورا پھر اٹھیں گے نئے بن کر
خلاصہ تفسیر
یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم (مر کر) ہڈیاں اور (ہڈیوں کا بھی) چورا (یعنی ریزہ ریزہ) ہوجاویں گے تو کیا (اس کے بعد قیامت میں) ہم از سر نو پیدا اور زندہ کئے جاویں گے (یعنی اول تو مر کر زندہ ہونا ہی مشکل ہے کہ جسم میں زندگی کی صلاحیت نہیں رہی پھر جبکہ وہ جسم بھی ریزہ ریزہ ہو کر اس کے اجزاء منتشر ہوجاویں تو اس کے زندہ ہونے کو کون مان سکتا ہے) آپ (ان کے جواب میں) فرما دیجئے کہ (تم تو ہڈیوں ہی کی حیات کو بعید سمجھتے ہو اور ہم کہتے ہیں کہ) تم پتھر یا لوہا یا اور کوئی ایسی مخلوق ہو کر دیکھ لو جو تمہارے ذہن میں (زندگی کی صلاحیت سے) بہت ہی بعید ہو (پھر دیکھو کہ زندہ کئے جاؤ گے یا نہیں اور پتھر اور لوہے کو بعید از حیات قرار دینا اس لئے ظاہر ہے کہ ان میں کسی وقت بھی حیات حیوانی نہیں آتی بخلاف ہڈیوں کے کہ ان میں پہلے اس وقت تک حیات رہ چکی ہے تو جب پتھر لوہے کا زندہ کرنا اللہ کے لئے مشکل نہیں تو اعضائے انسانی کو دوبارہ زندگی بخش دینا کیا مشکل ہوگا اور آیت میں لفظ کونوا جو صیغہ امر ہے اس سے مراد یہاں امر نہیں بلکہ ایک تعلیق اور شرط ہے کہ اگر تم بالفرض پتھر اور لوہا بھی ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ پھر بھی تمہیں دوبارہ زندہ کردینے پر قادر ہے) اس پر وہ پوچھیں گے کہ وہ کون ہے جو دوبارہ ہم کو زندہ کرے گا آپ فرما دیجئے کہ وہ وہ ہے جس نے تم کو اول بار میں پیدا کیا تھا (اصل بات یہ ہے کہ کسی چیز کے وجود میں آنے کے لئے دو چیزیں درکار ہیں ایک مادہ اور محل میں وجود کی قابلیت دوسرے اس کو وجود میں لانے کے لئے قوت فاعلہ پہلا سوال محل کی قابلیت کے متعلق تھا کہ وہ مرنے کے بعد زندگی کے قابل نہیں رہا اس کا جواب دے کر محل کی قابلیت ثابت کردی گئی تو یہ دوسرا سوال فاعلیت کے متعلق کیا گیا کہ ایسا کون سا قوت وقدرت والا ہے جو اپنی قوت فاعلیت سے یہ عجیب کام کرسکے اس کے جواب میں فرما دیا گیا کہ جس نے پہلے تمہیں ایسے مادے سے پیدا کیا تھا جس میں قابلیت حیات کا کسی کو گمان بھی نہ تھا تو اس کو دوبارہ پیدا کردینا کیا مشکل ہے اور جب قابل و فاعل دونوں کا سوال حل ہوگیا تو اب یہ لوگ زمانہ وقوع کی تحقیق کے لئے) آپ کے آگے سر ہلا ہلا کر کہیں گے کہ (اچھا یہ بتلائیے کہ) یہ (زندہ ہونا) کب ہوگا آپ فرما دیجئے کہ عجب نہیں کہ یہ قریب ہی آ پہونچا ہو (آگے ان حالات کا بیان ہے جو اس نئی زندگی کے وقت پیش آویں گے) یہ اس روز ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم کو (زندہ کرنے اور میدان حشر میں جمع کرنے کے لئے فرشتہ کے ذریعہ) پکارے گا اور تم (باضطرار) اس کی حمد کرتے ہوئے حکم کی تعمیل کرو گے (یعنی زندہ بھی ہوجاؤ گے اور میدان حشر میں جمع بھی ہوجاؤ گے) اور (اس روز کی ہول اور ہیبت دیکھ کر تمہارا یہ حال ہوجاوے گا کہ دنیا کی ساری عمر اور قبر میں رہنے کی ساری مدت کی نسبت) تم یہ خیال کرو گے کہ تم بہت ہی کم (مدت دنیا میں) رہے تھے (کیونکہ دنیا میں اور قبر میں آج کی ہولناکی کے مقابلہ میں پھر کچھ نہ کچھ راحت تھی اور راحت کا زمانہ انسان کو مصیبت پڑنے کے وقت بہت مختصر معلوم ہوا کرتا ہے)
Top