Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور نہ پیچھے پڑ جس بات کی خبر نہیں تجھ کو بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کی اس سے پوچھ ہوگی
خلاصہ تفسیر
اور جس بات کی تجھ کو تحقیق نہ ہو اس پر عمل مت کیا کرو (کیونکہ) کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے ان سب کی (قیامت کے دن) پوچھ ہوگی (کہ آنکھ اور کان کا استعمال کس کس کام میں کیا وہ کام اچھے تھے یا برے اور بےدلیل بات کا خیال دل میں کیوں جمایا) اور زمین پر اتراتا ہوا مت چل (کیونکہ) تو (اس زمین پر زور سے پاؤں رکھ کر) نہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ (اپنے بدن کو تان کر) پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتا ہے (پھر اترانا عبث) یہ سارے (مذکورہ) برے کام تیرے رب کے نزدیک (بالکل) ناپسند ہیں۔

معارف و مسائل
ان آیات میں دو حکم بارھواں اور تیرھواں عام معاشرت سے متعلق ہیں بارھویں حکم میں بغیر تحقیق کے کسی بات پر عمل کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔
یہاں یہ بات سامنے رکھنا ضروری ہے کہ تحقیق کے درجات مختلف ہوتے ہیں ایک ایسی تحقیق کہ یقین کامل کے درجہ کو پہنچ جائے مخالف جانب کا کوئی شبہ بھی نہ رہے دوسرے یہ کہ گمان غالب کے درجہ میں آجائے اگر جانب مخالف کا احتمال بھی موجود ہو اس طرح احکام میں بھی دو قسم ہیں ایک قطعیات اور یقینیات ہیں جیسے عقائد اور اصول دین ان میں پہلے درجہ کی تحقیق مطلوب ہے اس کے بغیر عمل کرنا جائز نہیں دوسرے ظنیات جیسے فروعی اعمال سے متعلق احکام اس تفیصل کے بعد مقتضیٰ آیت مذکورہ کا یہ ہے کہ یقینی اور قطعی احکام میں تحقیق بھی درجہ اول کی ہو یعنی قطعیت اور یقیین کامل کے درجہ کو پہنچ جائے اور جب تک ایسا نہ ہو عقائد اور اصول اسلام میں اس تحقیق کا اعتبار نہیں اس کے مقتضی پر عمل جائز نہیں اور ظنی فروعی امور میں دوسرے درجہ یعنی ظن غالب کے درجہ کی تحقیق کافی ہے (بیان القرآن)
کان آنکھ اور دل کے متعلق قیامت کے روز سوال
(آیت) اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤ َادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا اس آیت میں بتلایا ہے کہ قیامت کے روز کان آنکھ اور دل سے سوال کیا جائے گا مطلب یہ ہے کہ کان سے سوال ہوگا کہ تو نے عمر میں کیا کیا سنا آنکھ سے سوال ہوگا کہ تمام عمر میں کیا کیا دیکھا دل سے سوال ہوگا کہ تمام عمر دل میں کیسے کیسے خیالات پکائے اور کن کن چیزوں پر یقین کیا اگر کان سے ایسی باتیں سنیں جن کا سننا شرعا جائز نہیں تھا جیسے کسی کی غیبت یا حرام گانا بجانا وغیرہ یا آنکھ سے ایسی چیزیں دیکھیں جن کا دیکھنا شرعا حلال نہ تھا جیسے غیر محرم عورت یا امرد لڑکے پر نظر بد کرنا وغیرہ یا دل میں کوئی ایسا عقیدہ جمایا جو قرآن و سنت کے خلاف ہو یا کسی کے متعلق اپنے دل میں بلا دلیل کوئی الزام قائم کرلیا تو اس سوال کے نتیجہ میں گرفتار عذاب ہوگا قیامت کے روز اللہ کی دی ہوئی ساری ہی نعمتوں کا سوال ہوگا (آیت) ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ (یعنی تم سے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی سب نعمتوں کا سوال ہوگا) کان آنکھ دل ان نعمتوں میں سب سے زیادہ اہم ہیں اس لئے یہاں ان کا خصوصیت سے ذکر فرمایا گیا ہے۔
تفسیر قرطبی اور مظہری میں اس کا یہ مفہوم بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے جملہ میں جو یہ ارشاد آیا ہے کہ (آیت) لَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ یعنی جس چیز کا تمہیں علم اور تحقیق نہیں اس پر عمل نہ کرو اس کے متصل کان آنکھ اور دل سے سوال کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے بےتحقیق مثلا کسی شخص پر کوئی الزام لگایا اور بلاتحقیق کسی بات پر عمل کیا اگر وہ ایسی چیز سے متعلق ہے جو کان سے سنی جاتی ہے تو کان سے سوال ہوگا اور آنکھ سے دیکھنے کی چیز ہے تو آنکھ اور دل سے سمجھنے کی چیز ہے دل سے سوال ہوگا کہ یہ شخص اپنے الزام اور اپنے دل میں جمائے ہوئے خیال میں سچا ہے یا جھوٹا اس پر انسان کے یہ اعضاء خود شہادت دیں گے جو حشر کے میدان میں بےتحقیق الزام لگانیوانے اور بےتحقیق باتوں پر عمل کرنے والے کے لئے بڑی رسوائی کا سبب بنے گا جیسا کہ سورة یسین میں ہے (آیت) اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ یعنی آج قیامت کے دن ہم مجرموں کے مونہوں پر مہر لگا کر بند کردیں گے اور ان کے ہاتھ بولیں گے اور پاؤں گواہی دیں گے کہ اس نے ان اعضاء سے کیا کیا کام اچھے یا برے لئے ہیں)
یہاں کان آنکھ اور دل کی تخصیص شاید اس بناء پر کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ جو اس اور دل کا شعور و ادراک اسی لئے بخشا ہے کہ جو خیال یا عقیدہ دل میں آئے ان حواس اور ادراک کے ذریعہ اس کو جانچ سکے کہ یہ صحیح ہے تو اس پر عمل کرے اور غلط ہے تو باز رہے جو شخص ان سے کام لئے بغیر بےتحقیق باتوں کی پیروی میں لگ گیا اس نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری کی۔
پھر وہ حواس جن کے ذریعہ انسان مختلف چیزوں کو معلوم کرتا ہے پانچ ہیں کان آنکھ ناک زبان کی قوتیں اور پورے بدن میں وہ احساس جس سے کسی چیز کا سرد و گرم وغیرہ ہونا معلوم ہوتا ہے مگر عادۃ زیادہ معلومات انسان کو کان یا آنکھ سے ہوتی ہیں ناک سے سونگھنے اور زبان سے چکھنے ہاتھ وغیرہ سے چھونے کے ذریعہ جن چیزوں کا علم ہوتا ہے وہ سننے دیکھنے والی چیزوں کی نسبت سے بہت کم ہے اس جگہ حواس خمسہ میں سے صرف دو کے ذکر پر اکتفاء کرنا شاید اسی کی وجہ سے ہو پھر ان میں بھی کان کو آنکھ پر مقدم کیا گیا ہے اور قرآن کریم کے دوسرے مواقع میں بھی جہاں کہیں ان دونوں چیزوں کا ذکر آیا ہے ان میں کان ہی کو مقدم رکھا گیا ہے اس کا سبب بھی غالبا یہی ہے کہ انسان کی معلومات میں سب سے بڑا حصہ کان سے سنی ہوئی چیزوں کا ہوتا ہے آنکھ سے دیکھی ہوئی چیزیں ان کی نسبت سے بہت کم ہیں۔
Top