Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 109
وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا۩  ۞
وَيَخِرُّوْنَ : اور وہ گرپڑتے ہیں لِلْاَذْقَانِ : ٹھوڑیوں کے بل يَبْكُوْنَ : روتے ہوئے وَيَزِيْدُهُمْ : اور ان میں زیادہ کرتا ہے خُشُوْعًا : عاجزی
اور گرتے ہیں ٹھوڑیوں پر روتے ہوئے اور زیادہ ہوتی ہے ان کو عاجزی۔
(آیت) يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُهُمْ خُشُوْعًا تفسیر مظہری میں ہے کہ تلاوت قرآن کے وقت رونا مستحب ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جہنم میں نہ جاوے گا وہ شخص جو اللہ کے خوف سے رویا جب تک کہ دوہا ہوا دودھ دوبارہ تھنوں میں واپس نہ لوٹ جائے (یعنی جیسے یہ نہیں ہوسکتا کہ تھنوں سے نکالا ہوا دودھ پھر تھنوں میں واپس ڈال دیا جائے اسی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ کے خوف سے رونے والا جہنم میں چلا جائے اور ایک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو آنکھوں پر جہنم کی آگ حرام کردی ایک وہ جو اللہ کے خوف سے روئے دوسرے جو اسلامی سرحد کی حفاظت کے لئے رات کو بیدار رہے (بیہقی و حاکم و صحیحہ) اور حضرت نضر بن سعد ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس قوم میں کوئی اللہ کے خوف سے رونے والا ہو تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو اس کی وجہ سے آگ سے نجات عطا فرماویں گے (روح عن الحکیم الترمذی)
آج سب سے بڑی مصیبت جو مسلمانوں پر پڑی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ ان میں خدا کے خوف سے رونے والے بہت کم رہ گئے صاحب روح المعانی اس موقع پر خدا کے خوف سے رونے کے فضائل کی احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں وینبغی ان یکون ذلک حال العلماء۔ یعنی علماء دین کا یہی حال ہونا چاہئے کیونکہ ابن جریر ابن منذر وغیرہ نے عبد الاعلیٰ تیمی کا یہ مقولہ نقل کیا ہے۔
جس شخص کو صرف ایسا علم ملا ہو جو اس کو رلاتا نہیں تو سمجھ لو کہ اس کو علم نافع نہیں ملا۔
Top