Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 100
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ : اگر اَنْتُمْ : تم تَمْلِكُوْنَ : مالک ہوتے خَزَآئِنَ : خزانے رَحْمَةِ : رحمت رَبِّيْٓ : میرا رب اِذًا : جب لَّاَمْسَكْتُمْ : تم ضرور بند رکھتے خَشْيَةَ : ڈر سے الْاِنْفَاقِ : خرچ ہوجانا وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان قَتُوْرًا : تنگ دل
کہہ اگر تمہارے ہاتھ میں ہوتے میرے رب کی رحمت کے خزانے تو ضرور بند کر رکھتے اس ڈر سے کہ خرچ نہ ہوجائیں اور ہے انسان دل کا تنگ
معارف و مسائل
آخری آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ اگر تم لوگ اللہ کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوجاؤ تو بخل کرو گے کسی کو نہ دو گے اس خطرہ سے کہ اگر لوگوں کو دیتے رہے تو یہ خزانہ ختم ہوجائے گا اگرچہ رحمت رب کا خزانہ ختم ہونے والا نہیں مگر انسان اپنی طبیعت سے تنگ دل کم حوصلہ ہوتا ہے اس کو فراخی کے ساتھ لوگوں کے دینے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔
اس میں خزائن رحمت رب کے لفظ سے عام مفسرین نے مال و دولت کے خزائن مراد لئے ہیں اور اس کا ربط ماسبق سے یہ ہے کہ کفار مکہ نے اس کی فرمائش کی تھی کہ اگر آپ واقعی نبی حق ہیں تو آپ اس مکہ کے خشک ریگستان میں نہریں جاری کر کے اس کو سرسبز باغات میں منتقل کردیں جیسا ملک شام کا خطہ ہے جس کا جواب پہلے آ چکا ہے کہ تم نے تو گویا مجھے خدا ہی سمجھ لیا کہ خدائی کے اختیارات کا مجھے مطالبہ کر رہے ہو میں تو صرف ایک رسول ہوں خدا نہیں کہ جو چاہوں کر دوں یہ آیت بھی اگر اسی کے متعلق قرار دی جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ سر زمین مکہ کو نہری زمین اور سبزہ زار بنانے کی فرمائش اگر میری نبوت و رسالت کے امتحان کے لئے ہے تو اس کے لئے اعجاز قرآن کا معجزہ کافی ہے دوسری فرمائشوں کی ضرورت نہیں اور اگر اپنی قومی اور ملکی ضرورت رفع کرنے کے لئے ہے تو یاد رکھو کہ اگر تمہاری فرمائش کے مطابق تمہیں زمین مکہ میں سب کچھ دے بھی دیا جائے اور خزائن کا مالک تمہیں بنادیا جائے تو اس کا انجام بھی قومی اور ملک کے عوام کی خوشحالی نہیں ہوگی بلکہ انسانی عادت کے مطابق جن کے قبضہ میں یہ خزائن آ جاویں گے وہ ان پر سانپ بن کر بیٹھ جاویں گے عوام پر خرچ کرتے ہوئے افلاس کا خوف ان کو مانع ہوگا ایسی صورت میں بجز اس کے کہ مکہ کے چند رئیس اور زیادہ امیر اور خوشحال ہوجائیں عوام کا کیا فائدہ ہوگا اکثر مفسرین نے اس آیت کا یہی مفہوم قرار دیا ہے۔
سیدی حضرت حکیم الامت تھانوی نے بیان القرآن میں اس جگہ رحمت رب سے مراد نبوت و رسالت اور خزائن رحمت سے مراد کمالات نبوت لئے ہیں اس تفسیر کے مطابق اس کا ربط آیات سابقہ سے یہ ہوگا کہ تم جو نبوت و رسالت کے لئے بےسروپا اور بیہودہ مطالبات کر رہے ہو اس کا حاصل یہ ہے کہ میری نبوت کو ماننا نہیں چاہتے تو کیا پھر تمہاری خواہش یہ ہے کہ نبوت کا نظام تمہارے ہاتھوں میں دے دیا جائے جس کو چاہو نبی بنالو اگر ایسا کرلیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم کسی کو بھی نبوت و رسالت نہ دو گے بخل کر کے بیٹھ جاؤ گے حضرت نے اس تفسیر کو نقل کر کے فرمایا ہے کہ یہ تفسیر مواہب الہیہ میں سے کہ مقام کے ساتھ نہایت چسپاں ہے اس میں نبوت کو رحمت کے ساتھ تعبیر کرنا ایسا ہی ہوگا۔ جیسا (آیت) اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ میں بالاجماع رحمت سے مراد نبوت ہی ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
Top