Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 9
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
اِنَّا : بیشک نَحْنُ : ہم نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا الذِّكْرَ : یاد دہانی (قرآن) وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَهٗ : اس کے لَحٰفِظُوْنَ : نگہبان
ہم نے آپ اتاری ہے یہ نصیحت اور ہم آپ اس کے نگہبان ہیں۔
خلاصہ تفسیر
ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور (یہ دعوی بلا دلیل نہیں بلکہ اس کا معجزہ ہونا اس پر دلیل ہے اور قرآن کے ایک اعجاز کا بیان تو دوسری سورتوں میں مذکور ہے کہ کوئی انسان اس کی ایک سورة کی مثل نہیں بنا سکتا دوسرا اعجاز یہ ہے کہ) ہم اس (قرآن) کے محافظ (اور نگہبان) ہیں (اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کرسکتا جیسا اور کتابوں میں ہوتا ہے یہ ایسا صریح معجزہ ہے جس کو ہر عام و خاص سمجھ سکتا ہے پہلا معجزہ کہ قرآن کی فصاحت و بلاغت اور جامعیت کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا اس کو تو اہل علم ہی سمجھ سکتے ہیں مگر کمی بیشی نہ ہونے کو تو ایک ان پڑھ جاہل بھی دیکھ سکتا ہے)
معارف و مسائل
مامون کے دربار کا ایک واقعہ
امام قرطبی نے اس جگہ سند متصل کے ساتھ ایک واقعہ امیر المؤ منین مامون کے دربار کا نقل کیا ہے کہ مامون کی عادت تھی کہ کبھی کبھی اس کے دربار میں مسائل پر بحث ومباحثے اور مذاکرے ہوا کرتے تھے جس میں ہر اہل علم کو آنے کی اجازت تھی ایسے ہی ایک مذاکرہ میں ایک یہودی بھی آگیا جو صورت شکل اور لباس وغیرہ کے اعتبار سے بھی ایک ممتاز آدمی معلوم ہوتا تھا پھر گفتگو کی تو اس نے بھی فصیح وبلیغ اور عاقلانہ گفتگو کی تھی جب مجلس ختم ہوگئی تو مامون نے اس کو بلا کر پوچھا کہ تم اسرائیلی ہو ؟ اس نے اقرار کیا مامون نے (امتحان لینے کے لئے) کہا کہ اگر تم مسلمان ہوجاؤ تو ہم تمہارے ساتھ بہت اچھا سلوک کریں گے۔
اس نے جواب دیا کہ میں تو اپنے اور اپنے آباء و اجداد کے دین کو نہیں چھوڑتا بات ختم ہوگئی یہ شخص چلا گیا پھر ایک سال کے بعد یہی شخص مسلمان ہو کر آیا اور مجلس مذاکرہ میں فقہ اسلامی کے موضوع پر بہترین تقریر اور عمدہ تحقیقات پیش کیں مجلس ختم ہونے کے بعد مامون نے اس کو بلا کر کہا کہ تم وہی شخص ہو جو سال گذشتہ آئے تھے ؟ جواب دیا ہاں وہی ہوں مامون نے پوچھا کہ اس وقت تو تم نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تھا پھر اب مسلمان ہونے کا سبب کیا ہوا ؟
اس نے کہا میں یہاں سے لوٹا تو میں نے موجودہ مذاہب کی تحقیق کرنے کا ارادہ کیا میں ایک خطاط اور خوشنویس آدمی ہوں کتابیں لکھ کر فروخت کرتا ہوں تو اچھی قیمت سے فروخت ہوجاتی ہیں میں نے امتحان کرنے کے لئے تورات کے تین نسخے کتابت کئے جن میں بہت جگہ اپنی طرف سے کمی بیشی کردی اور یہ نسخے لے کر میں کینسی میں پہنچا یہودیوں نے بڑی رغبت سے ان کو خرید لیا پھر اسی طرح انجیل کے تین نسخے کمی بیشی کے ساتھ کتابت کر کے نصارے کے عبادت خانہ میں لے گیا وہاں بھی عیسائیوں نے بڑی قدرو منزلت کے ساتھ یہ نسخے مجھ سے خرید لئے پھر یہی کام میں نے قرآن کے ساتھ کیا اس کے بھی تین نسخے عمدہ کتابت کئے جن میں اپنی طرف سے کمی بیشی کی تھی ان کو لے کر جب میں فروخت کرنے کے لئے نکلا تو جس کے پاس لے گیا اس نے دیکھا کہ صحیح بھی ہے یا نہیں جب کمی بیشی نظر آئی تو اس نے مجھے واپس کردیا۔
اس واقعہ سے میں نے یہ سبق لیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے اور اللہ تعالیٰ ہی نے اس کی حفاظت کی ہوئی ہے اس لئے مسلمان ہوگیا قاضی یحییٰ بن اکثم اس واقعہ کے راوی کہتے ہیں کہ اتفاقا اسی سال مجھے حج کی توفیق ہوئی وہاں سفیان بن عیینہ سے ملاقات ہوئی تو یہ قصہ ان کو سنایا انہوں نے فرمایا بیشک ایسا ہی ہونا چاہئے کیونکہ اس کی تصدیق قرآن میں موجود ہے۔
یحیی ابن اکتم نے پوچھا قرآن کی کونسی آیت میں ؟ تو فرمایا کہ قرآن عظیم نے جہاں تورات و انجیل کا ذکر کیا ہے اس میں تو فرمایا بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ یعنی یہود و نصاری کو کتاب اللہ تورات و انجیل کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے یہی وجہ ہوئی کہ جب یہود و نصاری نے فریضہ حفاظت ادا نہ کیا تو یہ کتابیں مسخ و محرف ہو کر ضائع ہوگئیں بخلاف قرآن کریم کے کہ اس کے متعلق حق تعالیٰ نے فرمایا اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ یعنی ہم ہی اس کے محافظ ہیں اس لئے اس کی حفاظت حق تعالیٰ نے خود فرمائی تو دشمنوں کی ہزاروں کوششوں کے باوجود اس کے ایک نقطہ اور ایک زیر وزبر میں فرق نہ آسکا آج عہد رسالت کو بھی تقریبا چودہ سو برس ہوچکے ہیں تمام دینی اور اسلامی امور میں مسلمانوں کی کوتاہی اور غفلت کے باوجود قرآن کریم کے حفظ کرنے کا سلسلہ تمام دنیا کے مشرق ومغرب میں اسی طرح قائم ہے ہر زمانہ میں لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمان جوان بوڑھے لڑکے اور لڑکیاں ایسے موجود رہتے ہیں جن کے سینوں میں پورا قرآن محفوظ ہے کسی بڑے سے بڑے عالم کی بھی مجال نہیں کہ ایک حرف غلط پڑھ دے اسی وقت بہت سے بڑے اور بچے اس کی غلطی پکڑ لیں گے۔
حفاظت قرآن کے وعدے میں حفاظت حدیث بھی داخل ہے
تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ قرآن نہ صرف الفاظ قرآنی کا نام ہے نہ صرف معانی قرآن کا بلکہ دونوں کے مجموعے کو قرآن کہا جاتا ہے وجہ یہ ہے کہ معانی اور مضامین قرآنیہ تو دوسری کتابوں میں بھی موجود ہیں اور اسلامی تصانیف میں تو عموما مضامین قرآنیہ ہی ہوتے ہیں مگر ان کو قرآن نہیں کہا جاتا کیونکہ الفاظ قرآن کے نہیں ہیں اسی طرح اگر کوئی شخص قرآن کریم کے متفرق الفاظ اور جملے لے کر ایک مقالہ یا رسالہ لکھدے تو اس کو بھی کوئی قرآن نہیں کہے گا اگرچہ اس میں ایک لفظ بھی قرآن سے باہر کا نہ ہو اس سے معلوم ہوا کہ قرآن صرف اس مصحف ربانی کا نام ہے جس کے الفاظ اور معانی ساتھ ساتھ محفوظ ہیں۔
اسی سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوگیا کہ کسی زبان اردو یا انگریزی وغیرہ میں جو صرف ترجمہ قرآن کا شائع کر کے لوگ اس کو اردو یا انگریزی قرآن کا نام دیتے ہیں یہ ہرگز جائز نہیں کیونکہ وہ قرآن نہیں اور جب یہ معلوم ہوا کہ قرآن صرف الفاظ قرآن کا نام نہیں بلکہ معانی بھی اس کا ایک جزو ہیں تو حفاظت قرآن کی جو ذمہ داری اس آیت میں حق تعالیٰ نے خود اپنے ذمے قرار دی ہے اس میں جس طرح الفاظ قرآنی کی حفاظت کا وعدہ اور ذمہ داری ہے اسی طرح معانی اور مضامین قرآن کی حفاظت اور معنوی تحریف سے اس کے محفوظ رہنے کی بھی ذمہ داری اللہ تعالیٰ ہی نے لے لی ہے۔
اور یہ ظاہر ہے کہ معانی قرآنی وہی ہیں جن کے تعلیم دینے لے لئے رسول کریم ﷺ کو مبعوث فرمایا گیا جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا (آیت) لِتُبَيِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ۔ یعنی آپ کو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ آپ بتلادیں لوگوں کو مفہوم اس کلام کا جو ان کے لئے نازل کیا گیا ہے اور یہی معنی اس آیت کے ہیں۔
يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ اور اسی لئے آپ نے فرمایا انما بعثت معلما یعنی میں تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں اور جب رسول کریم ﷺ کو معانی قرآن کے بیان اور تعلیم کے لئے بھیجا گیا تو آپ نے امت کو جن اقوال و افعال کے ذریعہ تعلیم دی انہی اقوال و افعال کا نام حدیث ہے۔
مطلقا احادیث رسول کو غیر محفوظ کہنے والا درحقیقت قرآن کو غیر محفوظ کہتا ہے
جو لوگ آج کل دنیا کو اس مغالطہ میں ڈالنا چاہتے ہیں کہ احادیث کا ذخیرہ جو مستند کتب میں موجود ہے وہ اس لئے قابل اعتبار نہیں کہ وہ زمانہ رسول کریم ﷺ سے بہت بعد میں مدون کیا گیا ہے اول تو ان کا یہ کہنا بھی صحیح نہیں کیونکہ حدیث کی حفاظت و کتابت خود عہد رسالت میں شروع ہوچکی تھی بعد میں اس کی تکمیل ہوئی اس کے علاوہ حدیث رسول درحقیقت تفسیر قرآن اور معانی قرآن ہیں ان کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قرآن کے صرف الفاظ محفوظ رہ جائیں معانی (یعنی احادیث رسول) ضائع ہوجائیں ؟
Top