Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 75
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ : غور وفکر کرنے والوں کے لیے
بیشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کو
جن بستیوں پر عذاب ہوا ان سے عبرت حاصل کرنا چاہئے
(آیت) اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ وَاِنَّهَا لَبِسَبِيْلٍ مُّقِيْمٍ۔ اس میں حق تعالیٰ نے ان بستیوں کا محل وقوع بیان فرمایا جو عرب سے شام تک جانے والے راستہ پر ہیں اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ان میں اہل بصیرت کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی بڑی نشانیاں ہیں۔
ایک دوسری آیت میں ان کے متعلق یہ بھی ارشاد ہوا ہے (آیت) لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِيْلًا یعنی یہ بستیاں عذاب الہی کے ذریعہ ویران ہونے کے بعد پھر دوبارہ آباد نہیں ہوئیں بجز چند بستیوں کے اس مجموعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ نے ان بستیوں اور ان کے مکانات کو آنے والی نسلوں کے لئے عبرت کا سامان بنایا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ جب ان مقامات سے گذرے ہیں تو آپ پر ہیبت حق کا ایک خاص حال ہوتا تھا جس سے سر مبارک جھک جاتا تھا اور آپ اپنی سواری کو ان مقامات میں تیز کر کے جلد عبور کرنے کی سعی فرماتے رسول کریم ﷺ کے اس عمل نے یہ سنت قائم کردی کہ جن مقامات پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا ہے ان کو تماشا گاہ بنانا بڑی قساوت ہے بلکہ ان سے عبرت حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ وہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا استحضار اور اس کے عذاب کا خوف طاری ہو۔
حضرت لوط ؑ کی بستیاں جن کا تختہ الٹا گیا ہے قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق عرب سے شام کو جانے والے راستہ پر اردن کے علاقہ میں آج بھی یہ مقام سطح سمندر سے کافی گہرائی میں ایک عظیم صحرا کی صورت میں موجود ہے اس کے ایک بہت بڑے رقبہ پر ایک خاص قسم کا پانی دریا کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے اس پانی میں کوئی مچھلی، مینڈک وغیرہ جانور زندہ نہیں رہ سکتا اس دریا کو میت اور بحر لوط کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ درحقیقت اس میں پانی کے اجزاء بہت کم اور تیل کی قسم کے اجزاء زیادہ ہیں اس لئے اس میں کوئی دریائی جانور زندہ نہیں رہ سکتا
Top