Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 51
وَ نَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَۘ
وَنَبِّئْهُمْ : اور انہیں خبر دو (سنا دو ) عَنْ : سے۔ کا ضَيْفِ : مہمان اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
اور حال سنا دے ان کو ابراہیم کے مہمانوں کا
خلاصہ تفسیر
اور (اے محمد ﷺ آپ ان (لوگوں) کو ابراہم ؑ کے مہمانوں (کے قصہ) کی بھی اطلاع دیجئے (وہ قصہ اس وقت واقع ہوا تھا) جب کہ وہ (مہمان جو کہ واقع میں فرشتے تھے اور بشکل انسانی ہونے کی وجہ سے حضرت ابراہیم ؑ نے ان کو مہمان سمجھا) ان کے (یعنی ابراہیم ؑ کے) پاس آئے پھر (آ کر) انہوں نے السلام علیکم کہا (ابراہیم ؑ ان کو مہمان سمجھ کر فورا ان کے لئے کھانا تیار کر کے لائے مگر چونکہ وہ فرشتے تھے انہوں نے کھایا نہیں تب) ابراہیم (علیہ السلام دل میں ڈرے کہ یہ لوگ کھانا کیوں نہیں کھاتے کیونکہ وہ فرشتے بشکل بشر تھے ان کو بشر ہی سمجھا اور کھانا نہ کھانے سے شبہ ہوا کہ یہ لوگ کہیں مخالف نہ ہوں اور) کہنے لگے کہ ہم تو تم سے خائف ہیں انہوں نے کہا کہ آپ خائف نہ ہوں کیونکہ ہم (فرشتے ہیں منجانب اللہ ایک بشارت لے کر آئے ہیں اور) آپ کو ایک فرزند کی بشارت دیتے ہیں جو بڑا عالم ہوگا (مطلب یہ کہ نبی ہوگا کیونکہ آدمیوں میں سب سے زیادہ علم انبیاء (علیہم السلام) کو ہوتا ہے مراد اس فرزند سے اسحاق ؑ ہیں اور دوسری آیتوں میں حضرت اسحاق ؑ کے ساتھ یعقوب ؑ کی بشارت بھی مذکور ہے) ابراہیم ؑ کہنے لگے کہ کیا تم مجھ کو اس حالت میں (فرزند کی) بشارت دیتے ہو کہ مجھ پر بوڑھاپا آ گیا سو (ایسی حالت میں مجھ کو) کس چیز کی بشارت دیتے ہو (مطلب یہ کہ یہ امر فی نفسہ عجیب ہے نہ یہ کہ قدرت سے بعید ہے) وہ (فرشتے) بولے کہ ہم آپ کو امر واقعی کی بشارت دیتے ہیں (یعنی تولد فرزند یقینا ہونے والا ہے) سو آپ ناامید نہ ہوں (یعنی اپنے بڑھاپے پر نظر نہ کیجئے کہ ایسے اسباب عادیہ پر نظر کرنے سے وساوس ناامیدی کے غالب ہوتے ہیں) ابراہیم ؑ نے فرمایا کہ بھلا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتا ہے بجز گمراہ لوگوں کے (یعنی میں نبی ہو کر گمراہوں کی صفت سے کب موصوف ہوسکتا ہوں محض مقصود اس امر کا عجیب ہونا ہے باقی اللہ کا وعدہ سچا اور مجھ کو امید سے بڑھ کر اس کا کامل یقین ہے بعد اس کے فراست نبوت سے آپ کو معلوم ہوا کہ ان ملائکہ کے آنے سے علاوہ بشارت کے اور بھی کوئی مہم عظیم مقصود ہے اس لئے) فرمانے لگے کہ (جب قرائن سے مجھ کو یہ معلوم ہوگیا کہ تمہارے آنے کا کچھ اور بھی مقصود ہے) تو (یہ بتلاؤ کہ) اب تم کو کیا مہم در پیش ہے اے فرشتو ! فرشتوں نے کہا کہ ہم ایک مجرم قوم کی طرف (ان کو سزا دینے کے لئے) بھیجے گئے ہیں (مراد قوم لوط ہے) مگر لوط ؑ کا خاندان کہ ہم ان سب کو (عذاب سے) بچا لیں گے (یعنی ان کو بچنے کا طریقہ بتلا دیں گے کہ ان مجرموں سے علیحدہ ہوجائیں) بجر ان کی (یعنی لوط ؑ کی) بی بی کے کہ اس کی نسبت ہم نے تجویز کر رکھا ہے کہ وہ ضرور اسی قوم مجرم میں رہ جائے گی (اور ان کے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوگی)
پھر جب وہ فرشتے خاندان لوط ؑ کے پاس آئے (تو چونکہ بشکل بشر تھے اس لئے) کہنے لگے تم تو اجنبی لوگوں کو پریشان کیا کرتے ہیں) انہوں نے کہا نہیں (ہم آدمی نہیں) بلکہ ہم (فرشتے ہیں) آپ کے پاس وہ چیز (یعنی وہ عذاب) لے کر آئے ہیں جس میں یہ لوگ شک کیا کرتے تھے اور ہم آپ کے پاس یقینی ہونے والی چیز (یعنی عذاب) لے کر آئے ہیں اور ہم (اس خبر دینے میں) بالکل سچے ہیں سو آپ رات کے کسی حصہ میں اپنے گھر والوں کو لے کر (یہاں سے) چلے جائیے اور آپ سب کے پیچھے ہو لیجئے (تاکہ کوئی رہ نہ جائے یا لوٹ نہ جائے اور آپ کے رعب اور ہیبت کی وجہ سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے جس کی ممانعت کردی گئی ہو) اور تم میں سے کوئی پیچھا پھر کر بھی نہ دیکھے (یعنی سب جلدی چلے جائیں) اور جس جگہ (جانے کا) تم کو حکم ہوا ہے اس طرف سب کے سب چلے جاؤ (تفسیر در منثور میں بحوالہ سدی نقل کیا ہے کہ وہ جگہ ملک شام ہے جس کی طرف ہجرت کرنے کا ان حضرات کو حکم دیا گیا تھا) اور ہم نے (ان فرشتوں کے واسطے سے) لوط ؑ کے پاس یہ حکم بھیجا کہ صبح ہوتے ہی بالکل ان کی جڑ کٹ جائے گی (یعنی بالکل ہلاک و برباد ہوجائیں گے فرشتوں کی یہ گفتگو وقوع کے اعتبار سے اس قصہ بیان کرنے سے جو بات مقصود ہے یعنی نافرمانوں پر عذاب اور فرمانبرداروں کی نجات و کامیابی وہ پہلے ہی اہتمام کے ساتھ معلوم ہوجائے اگلا قصہ یہ ہے) اور شہر کے لوگ (یہ خبر سن کر کہ لوط ؑ کے یہاں حسین لڑکے آئے ہیں) خوب خوشیاں مناتے ہوئے (اپنی فاسد نیت اور برے ارادہ کے ساتھ لوط ؑ کے گھر پہونچے) لوط ؑ نے (جو اب تک ان کو آدمی اور اپنا مہمان ہی سمجھ رہے تھے ان کے فاسد ارادوں کا احساس کر کے) فرمایا کہ یہ لوگ میرے مہمان ہیں (ان کو پریشان کر کے) مجھ کو (عام لوگوں میں) رسوا نہ کرو (کیونکہ مہمان کی توہین میزبان کی توہین ہوتی ہے اگر تمہیں ان پردیسیوں پر رحم نہیں آتا تو کم از کم میرا خیال کرو کہ میں تمہاری بستی کا رہنے والا ہوں اس کے علاوہ جو ارادہ تم کر رہے ہو وہ اللہ تعالیٰ کے قہر وغضب کا سبب ہے) تم اللہ سے ڈرو اور مجھ کو (ان مہمانوں کی نظر میں) رسوا مت کرو (کہ مہمان یہ سمجھیں گے کہ اپنی بستی کے لوگوں میں بھی ان کی کوئی وقعت نہیں) وہ کہنے لگے (کہ یہ رسوائی ہماری طرف سے نہیں آپ نے خود اپنے ہاتھوں خریدی ہے کہ ان کو مہمان بنایا) کیا ہم آپ کو دنیا بھر کے لوگوں (کو اپنا مہمان بنانے) سے (بارہا) منع نہیں کرچکے (نہ آپ ان کو مہمان بناتے نہ اس رسوائی کی نوبت آتی) لوط ؑ نے فرمایا کہ (یہ تو بتلاؤ کہ اس بیہودہ حرکت کی کیا ضرورت ہے جس کی وجہ سے ہمیں کسی کو مہمان بنانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی قضاء شہوت کے طبعی تقاضے کے لئے) یہ میری (بہو) بیٹیاں (جو تمہارے گھروں میں ہیں) موجود ہیں اگر تم میرا کہنا مانو (تو شریفانہ طور پر اپنی عورتوں سے اپنا مطلب پورا کرو مگر وہ کس کی سنتے تھے) آپ کی جان کی قسم اپنی مستی میں مدہوش تھے پس سورج نکلتے نکلتے ان کو سخت آواز نے آ دبایا (یہ ترجمہ مشرقین کا ہے اس سے پہلے جو مصبحین کا لفظ آیا ہے جس کے معنی صبح ہوتے ہوتے کے ہیں ان دونوں کا اجتماع اس اعتبار سے ممکن ہے کہ صبح سے ابتدا ہوئی اور اشراق تک خاتمہ ہوا) پھر (اس سخت آواز کے بعد) ہم نے ان بستیوں (کی زمین کو الٹ کر ان) کا اوپر کا تختہ (تو) نیچے کردیا (اور نیچے کا تختہ اوپر کردیا) اور ان لوگوں پر کنکر کے پتھر برسانا شروع کئے اس واقعہ میں بہت سے نشانات ہیں اہل بصیرت کے لئے (مثلا ایک تو یہ کہ برے فعل کا نتیجہ آخر کار برا ہوتا ہے اگر کچھ دن کی مہلت اور ڈھیل مل جائے تو اس سے دھوکہ نہ کھانا چاہئے دوسرے یہ کہ دائمی اور باقی رہنے والی راحت وعزت صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی اطاعت پر موقوف ہے تیسرے یہ کہ اللہ کی قدرت کو انسانی قدرت پر قیاس کر کے فریب میں مبتلا نہ ہوں اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے وہ ظاہری اسباب کے خلاف بھی جو چاہے کرسکتا ہے وغیر ذلک۔
Top