Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 31
اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ
اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس اَبٰٓى : اس نے انکار کیا اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : وہ ہو مَعَ : ساتھ السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے
مگر ابلیس نے نہ مانا کہ ساتھ ہو سجدہ کرنے والوں کے
حکم سجدہ فرشتوں کو ہوا تھا ابلیس اس میں تبعا شامل قرار دیا گیا
سورة اعراف میں ابلیس کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا ہے مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدہ کا حکم فرشتوں کے ساتھ ابلیس کو بھی دیا گیا تھا اسی لئے اس سورت کی جو آیات ابھی آپ نے پڑھی ہیں جن سے بظاہر اس حکم کا فرشتوں کے لئے مخصوص ہونا معلوم ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اصالۃً یہ حکم فرشتوں کو دیا گیا مگر ابلیس بھی چونکہ فرشتوں کے اندر موجود تھا اس لئے تبعا وہ بھی اس حکم میں شامل تھا کیونکہ آدم ؑ کی تعظیم و تکریم کے لئے جب اللہ تعالیٰ کی بزرگ ترین مخلوق فرشتوں کو حکم دیا گیا تو دوسری مخلوق کا تبعا اس حکم میں داخل ہونا بالکل ظاہر تھا اسی لئے ابلیس نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ مجھے سجدہ کا حکم دیا ہی نہیں گیا تو عدم تعمیل کا جرم مجھ پر عائد نہیں ہوتا اور شاید قرآن کریم کے الفاظ (آیت) اَبٰٓى اَنْ يَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ میں اس کی طرف اشارہ ہو کہ اَبٰٓى اَنْ یسجُدَ کے بجائے اَنْ يَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ ذکر فرمایا جس سے اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ اصل ساجدین تو فرشتے ہی تھے مگر عقلا لازم تھا کہ ابلیس بھی جب ان میں موجود تھا تو وہ بھی ملائکہ ساجدین کے ساتھ شامل ہوجاتا اس کے عدم شمول پر عتاب فرمایا گیا۔
Top