Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 22
وَ اَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَسْقَیْنٰكُمُوْهُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِیْنَ
وَاَرْسَلْنَا : اور ہم نے بھیجیں الرِّيٰحَ : ہوائیں لَوَاقِحَ : بھری ہوئی فَاَنْزَلْنَا : پھر ہم نے اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ : پھر ہم نے وہ تمہیں پلایا وَمَآ : اور نہیں اَنْتُمْ : تم لَهٗ : اس کے بِخٰزِنِيْنَ : خزانہ کرنے والے
اور چلائیں ہم نے ہوائیں رس بھری، پھر اتارا ہم نے آسمان سے پانی پھر تم کو وہ پلایا اور تمہارے پاس نہیں اس کا خزانہ
تمام مخلوق کے لئے آب رسانی اور آب پاشی کا عجیب و غریب نظام الہی
(آیت) وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ سے وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ تک قدرت الہیہ کے اس حکیمانہ نظام کی طرف اشارہ ہے جس کے ذریعہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسان اور جانور، چرندوں، پرندوں، درندوں کے لئے ضرورت کے مطابق پینے، نہانے، دھونے اور کھیتوں درختوں کو سیراب کرنے کے لئے پانی بلا کسی قیمت کے مل جاتا ہے اور جو کچھ کسی کنواں بنانے یا پائپ لگانے پر خرچ کرنا پڑتا ہے وہ اپنی سہولتیں حاصل کرنے کی قیمت ہے پانی کے ایک قطرہ کی قیمت بھی کوئی ادا نہیں کرسکتا نہ کسی سے مانگی جاتی ہے۔
اس آیت میں پہلے تو اس کا ذکر کیا گیا کہ کس طرح قدرت الہیہ نے سمندر کے پانی کو پوری زمین پر پہنچانے کا عجیب و غریب نظام بنایا ہے کہ سمندر میں بخارات پیدا فرمائے جن سے بارش کا مواد (مان سون) پیدا ہوا اوپر سے ہوائیں چلائیں جو اس کو بادل کی شکل میں تبدیل کر کے پانی سے بھرے ہوئے پہاڑوں جیسے جہاز بنادیں پھر پانی سے لبریز ان ہوائی جہازوں کو دنیا کے ہر گوشہ میں جہاں جہاں پہونچانا ہے پہنچا دیں پھر فرمان الہی کے تابع جس زمین پر جتنا پانی ڈالنے کا حکم ہے اس کے مطابق یہ خود کار ہوائی جہاز وہاں پانی برسا دیں۔
اس طرح یہ سمندر کا پانی زمین کے ہر گوشے میں بسنے والے انسانوں اور جانوروں کو گھر بیٹھے مل جائے اسی نظام میں ایک عجیب و غریب تبدیلی پانی کے ذائقے اور دوسری کیفیات میں پیدا کردی جاتی ہے کیونکہ سمندر کے پانی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے انتہائی کھارا اور ایسا نمکین بنایا ہے کہ ہزاروں ٹن نمک اس سے نکالا اور استعمال کیا جاتا ہے حکمت اس میں یہ ہے کہ یہ عظیم الشان پانی کا کرہ جس میں کروڑوں قسم کے جانور رہتے۔ اور اسی میں مرتے اور سڑتے ہیں اور ساری زمین کا گندہ پانی بالآخر اسی میں جاکر پڑتا ہے اگر یہ پانی میٹھا ہوتا تو ایک دن میں سڑ جاتا اور اس کی بدبو اتنی شدید ہوتی کہ خشکی میں رہنے والوں کی تندرستی اور زندگی بھی مشکل ہوجاتی اس لئے قدرت نے اس کو ایسا تیزابی کھارا بنادیا کہ دنیا بھر کی غلاظتیں اس میں پہنچ کر بھسم ہوجاتی ہیں غرض اس حکمت کی بناء پر سمندر کا پانی کھارا بلکہ تلخ بنایا گیا جو نہ پیاجا سکتا ہے اور نہ اس سے پیاس بجھ سکتی ہے نظام قدرت نے جو پانی کے ہوائی جہاز بادلوں کی شکل میں تیار کئے ان کو صرف سمندری پانی کا خزانہ ہی نہیں بنایا بلکہ مون سون اٹھنے سے لے کر زمین پر برسنے تک اس میں ایسے انقلابات بغیر کسی ظاہری مشین کے پیدا کردیئے کہ اس پانی کا نمک علیحدہ ہو کر میٹھا پانی بن گیا سورة مرسلت میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
(آیت) وَاَسْقَيْنٰكُمْ مَّاۗءً فُرَاتًا اس میں لفظ فرات کے معنی ہیں ایسا میٹھا پانی جس سے پیاس بجھے معنی یہ ہیں کہ ہم نے بادلوں کی قدرتی مشینوں سے گذار کر سمندر کے کھارے اور تلخ پانی کو تمہارے پینے کے لئے شیریں بنادیا۔
سورة واقعہ میں اسی مضمون کو ارشاد فرمایا ہے (آیت) اَفَرَءَيْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَ ءَاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ۔ بھلا دیکھو تو پانی کو جو تم پیتے ہو کیا تم نے اتارا (اس کو بادل سے یا ہم ہیں اتارنے والے اگر ہم چاہیں کردیں اس کو کھارا پھر کیوں نہیں احسان مانتے۔
یہاں تک تو قدرت الہیہ کی یہ کرشمہ سازی دیکھی کہ سمندر کے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کر کے پورے روئے زمین پر بادلوں کے ذریعے کس حسن نظام کیساتھ پہونچایا کہ ہر خطہ کے نہ صرف انسانوں کو بلکہ جانوروں کو بھی جو انسانوں کی دریافت سے باہر ہیں گھر بیٹھے پانی پہنچا دیا اور بالکل مفت بلکہ جبری طور پر پہونچا۔
لیکن انسان اور جانوروں کا مسئلہ صرف اتنی بات سے حل نہیں ہوجاتا کیونکہ پانی ان کی ایسی ضرورت ہے جس کی احتیاج ہر روز بلکہ ہر آن ہے اس لئے ان کی ضرورت روز مرہ کو پورا کرنے کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ ہر جگہ سال کے بارہ مہینے ہر ورز بارش ہوا کرتی لیکن اس صورت میں ان کی پانی کی ضرورت تو رفع ہوجاتی مگر دوسری معاشی ضرورت میں کتنا خلل آتا اس کا اندازہ کسی اہل تجربہ کے لئے مشکل نہیں سال بھر کے ہر دن کی بارش تندرستی پر کیا اثر ڈالتی اور کاروبار اور نقل و حرکت میں کیا تعطل پیدا کرتی۔
دوسرا طریقہ یہ تھا کہ سال بھر کے خاص خاص مہینوں میں اتنی بارش ہوجائے کہ اس کا پانی باقی مہینوں کے لئے کافی ہوجائے مگر اس کے لئے ضرورت ہوتی کہ ہر شخص کا ایک کوٹہ مقرر کرکے اس کے سپرد کیا جائے کہ وہ اپنے کوٹہ اور حصہ کا پانی خود اپنی حفاظت میں رکھے۔
اندازہ لگائیے کہ اگر ایسا کیا جاتا تو ہر انسان اتنی ٹینکیاں یا برتن وغیرہ کہاں سے لاتا جن میں تین یا چھ مہینہ کی ضرورت کا پانی جمع کرکے رکھ لے اور اگر وہ کسی طرح ایسا کر بھی لیتا تو ظاہر ہے کہ چند روز کے بعد یہ پانی سڑ جاتا اور پینے بلکہ استعمال کرنے کے بھی قابل نہ رہتا اس لئے قدرت الہیہ نے اس کے باقی رکھنے اور بوقت ضرورت ہر جگہ مل جانے کا ایک دوسرا عجیب و غریب نظام بنایا کہ جو پانی برسایا جاتا ہے اس کا کچھ حصہ تو فوری طور پر درختوں کھیتوں اور انسانوں اور جانوروں کو سیراب کرنے میں کام آ ہی جاتا ہے کچھ کھلے تالابوں جھیلوں میں محفوظ ہوجاتا ہے اور اس کے بہت بڑے حصہ کو برف کی شکل میں بحر منجمد بنا کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر لاد دیا جاتا ہے جہاں تک نہ گرد و غبار کی رسائی ہے نہ کسی غلاظت کی پھر اگر وہ پانی سیال صورت میں رہتا تو ہوا کے ذریعہ کچھ گرد و غبار یا دوسری خراب چیزیں اس میں پہنچ جانے کا خطرہ رہتا پرندے جانوروں کے اس میں گرنے مرنے کا اندیشہ رہتا جس سے وہ پانی خراب ہوجاتا مگر قدرت نے اس پانی کے عظیم خزانے کو بحر منجمد (برف) بنا کر پہاڑوں پر لاد دیا جہاں سے تھوڑا تھوڑا رس کر وہ پہاڑوں کی رگوں میں پیوست ہوجاتا ہے اور پھر چشموں کی صورت میں ہر جگہ پہنچ جاتا ہے اور جہاں یہ چشمے بھی نہیں ہیں تو وہاں زمین کی تہہ میں یہ پانی انسانی رگوں کی طرح زمین کے ہر خطہ پر بہتا ہے اور کنواں کھودنے سے برآمد ہونے لگتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ آب رسانی کا یہ نظام الہی ہزاروں نعمتیں اپنے اندر لئے ہوئے ہے اول تو پانی کو پیدا کرنا ایک بڑی نعمت ہے پھر بادلوں کے ذریعہ اس کو زمین کے ہر خطہ پر پہونچانا دوسری نعمت ہے پھر اس کو انسان کے پینے کے قابل بنادینا تیسری نعمت ہے پھر انسان کو اس کے پینے کا موقع دینا چوتھی نعمت ہے پھر اس پانی کو ضرورت کے مطابق جمع اور محفوظ رکھنے کا نظام محکم پانچویں نعمت ہے پھر انسان کو اس سے پینے اور سیراب ہونے کا موقع دینا چھٹی نعمت ہے کیونکہ پانی کے موجود ہوتے ہوئے بھی ایسی آفتیں ہو سکتی ہیں کہ ان کی وجہ سے آدمی پینے پر قادر نہ ہو قرآن کریم کی أیت فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ ۚ وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ میں انہی نعماء الہیہ کی طرف اشارہ اور تنبیہ کی گئی ہے فتبارک اللہ احسن الخالقین۔
Top