Maarif-ul-Quran - Al-Hijr : 18
اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ
اِلَّا : مگر مَنِ : جو اسْتَرَقَ : چوری کرے السَّمْعَ : سننا فَاَتْبَعَهٗ : تو اس کا پیچھا کرتا ہے شِهَابٌ : شعلہ مُّبِيْنٌ : چمکتا ہوا
مگر جو چوری سے سن بھاگا سو اس کے پیچھے پڑا انگارہ چمکتا ہوا۔
معارف و مسائل
شہاب ثاقب
ان آیات میں سے ایک تو یہ ثابت ہوا کہ شیاطین کی رسائی آسمانوں تک نہیں ہو سکتی ابلیس لعین کا تخلیق آدم ؑ کے وقت آسمانوں میں ہونا اور آدم وحوا (علیہا السلام) کو دھوکہ میں مبتلا کرنا وغیرہ یہ سب آدم ؑ کے زمین پر نزول سے پہلے کے واقعات ہیں اس وقت تک جنات و شیاطین کا داخلہ آسمانوں میں ممنوع نہیں تھا نزول آدم ؑ اور اخراج شیطان کے بعد سے یہ داخلہ ممنوع ہوا سورة جن کی آیات میں جو یہ مذکور ہے وّاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ للسَّمْعِ ۭ فَمَنْ يَّسْتَمِعِ الْاٰنَ يَجِدْ لَهٗ شِهَابًا رَّصَدًا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے شیاطین آسمانوں کی خبریں فرشتوں کی باہمی گفتگو سے سن لیا کرتے تھے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ شیاطین آسمانوں میں داخل ہو کر سنتے تھے نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ کے الفاظ سے بھی یہ مفہوم ہوتا ہے کہ چوروں کی طرح آسمانی فضاء میں جہاں بادل ہوتے ہیں چھپ کر بیٹھ جاتے اور سن لیا کرتے تھے ان الفاظ سے خود بھی یہی مترشح ہوتا ہے کہ قبل بعثت نبی کریم ﷺ بھی جنات و شیاطین کا داخلہ آسمانوں میں ممنوع ہی تھا مگر فضاء آسمانی تک پہنچ کر چوری سے کچھ سن لیا کرتے تھے بعثت نبوی کے بعد حفاظت وحی کا یہ مزید سامان ہوا کہ شیاطین کو اس چوری سے بھی بذریعہ شہاب ثاقب روک دیا گیا۔
رہا یہ سوال کہ آسمانوں کے اندر فرشتوں کی گفتگو کو آسمانوں سے باہر شیاطین کس طرح سن سکتے تھے سو یہ کوئی ناممکن چیز نہیں کہ فرشتے کسی وقت آسمانوں سے نیچے اتر کر باہم ایسی گفتگو کرتے ہوں جس کو شیاطین سن بھاگتے تھے صحیح بخاری میں حضرت صدیقہ عائشہ ؓ کی حدیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے کہ فرشتے آسمان سے نیچے جہاں بادل ہوتے ہیں کبھی کسی وقت یہاں تک اترتے ہیں اور آسمانی خبروں کا باہمی تذکرہ کرتے ہیں شیاطین اسی فضاء آسمانی میں چھپ کر یہ خبریں سنتے تھے جن کو شہاب ثاقب کے ذریعہ بند کیا گیا اس کی پوری تفصیل انشاء اللہ سورة جن میں (آیت) وَّاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ للسَّمْعِ کی تفسیر میں آئے گی
دوسرا مسئلہان آیات میں شہاب ثاقب کا ہے قرآن کریم کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہاب حفاظت وحی کے لئے شیاطین کو مارنے کے واسطے پیدا ہوتے ہیں ان کے ذریعہ شیاطین کو دفع کیا جاتا ہے تاکہ وہ فرشتوں کی باتیں نہ سن سکیں۔
اس میں ایک اشکال قوی یہ ہے کہ فضائے آسمانی میں شہابوں کا وجود کوئی نئی چیز نہیں رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی ستارے ٹوٹنے کا مشاہدہ کیا جاتا تھا اور بعد میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ شہاب ثاقب شیاطین کو دفع کرنے لے لئے پیدا ہوتے ہیں جو کہ عہد نبوی کی خصوصیات ہے اس سے تو بظاہر اسی بات کی تقویت ہوتی ہے جو فلاسفہ کا خیال ہے کہ شہاب ثاقب کی حقیقت اتنی ہی ہے کہ آفتاب کی تمازت سے جو بخارات زمین سے اٹھتے ہیں ان میں کچھ آتش گیر مادے بھی ہوتے ہیں اوپر جا کر جب ان کو آفتاب یا کسی دوسری وجہ سے مزید گرمی پہونچتی ہے تو وہ سلگ اٹھتے ہیں اور دیکھنے والوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ستارا ٹوٹا ہے اسی لئے محاورات میں اس کو ستارا ٹوٹنے ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے عربی زبان میں بھی اس کے لئے انقضاض کو کب کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو اسی کا ہم معنی ہے۔
جواب یہ ہے کہ ان دونوں باتوں میں کوئی تعارض واختلاف نہیں زمین سے اٹھنے والے بخارات مشتعل ہوجائیں یہ بھی ممکن ہے اور یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ کسی ستارے یا سیارے سے کوئی شعلہ نکل کر گرے اور ایسا ہونا عام عادات کے مطابق ہمیشہ سے جاری ہو مگر بعثت نبوی سے پہلے ان شعلوں سے کوئی خاص کام نہیں لیا جاتا تھا آنحضرت محمد ﷺ کی بعثت کے بعد ان شہابی شعلوں سے یہ کام لے لیا گیا کہ شیاطین جو فرشتوں کی باتیں چوری سے سننا چاہئیں ان کو اس شعلے سے مارا جائے۔
علامہ آلوسی نے روح المعانی میں یہی توجیہ بیان فرمائی ہے اور نقل کیا ہے کہ امام حدیث زہری سے کسی نے دریافت کیا کہ کیا رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی ستارے ٹوٹتے تھے ؟ فرمایا کہ ہاں اس پر اس نے سورة جن کی مذکورہ آیت معارضہ کے لئے پیش کی تو فرمایا کہ شہاب ثاقب تو پہلے بھی تھے مگر بعثت نبوی کے بعد جب شیاطین پر تشدد کیا گیا تو ان شیاطین کے دفع کرنے کا کام لے لیا گیا۔
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں بروایت ابن عباس ؓ خود آنحضرت محمد ﷺ کا یہ ارشاد موجود ہے کہ آپ صحابہ کے ایک مجمع میں تشریف فرما تھے کہ ستارہ ٹوٹا آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ تم زمانہ جاہلیت میں یعنی اسلام سے پہلے اس ستارہ ٹوٹنے کو کیا سمجھا کرتے تھے ؟ لوگوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھا کرتے تھے کہ دنیا میں کوئی بڑا حادثہ پیدا ہونے والا ہے یا کوئی بڑا آدمی مرے گا یا پیدا ہوگا آپ نے فرمایا کہ یہ لغو خیال ہے اس کا کسی کے مرنے جینے سے کوئی تعلق نہیں یہ شعلے تو شیاطین کو دفع کرنے کے لئے پھینکے جاتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شہاب ثاقب کے متعلق جو کچھ فلاسفہ نے کہا ہے وہ بھی قرآن کے منافی نہیں اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ یہ شعلے براہ راست بعض ستاروں سے ٹوٹ کر گرائے جاتے ہوں مقصد قرآن دونوں صورتوں میں ثابت اور واضح ہے۔
Top