شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان نہایت رحم والے ہیں (آیت) (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ) سب تعریفیں اللہ کو لائق ہیں جو مربیّ ہیں ہر ہر عالم کے (مخلوقات الگ الگ جنس ایک ایک عالم کہلاتا ہے مثلاً ملائکہ، عالم انسان، عالم جن) الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ جو بڑے مہربان نہایت رحم والے ہیں، مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ جو مالک ہیں روز جزا کے (مراد قیامت کا دن ہے جس میں ہر شخص اپنے عمل کا بدلہ پاوے گا) اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے درخواست اعانت کی کرتے ہیں، اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ بتلا دیجئے ہم کو راستہ سیدھا (مراد دین کا راستہ ہے (، صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا (مراد دین کا انعام ہے) غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ ، نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب ہوا اور نہ ان لوگوں جو راستہ سے گم ہوگئے (راہ ہدایت چھوڑنے کی دو وجہ ہوا کرتی ہیں ایک تو یہ کہ اس کی پوری تحقیق ہی نہ کرے ضالیّن سے ایسے لوگ مراد ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ تحقیق پوری ہونے کے باوجود اس پر عمل نہ کرے، مغضوب علیہم سے ایسے لوگ مراد ہیں کیونکہ جان بوجھ کر خلاف کرنا زیادہ ناراضگی کا سبب ہوتا ہے)
معارف و مسائل
سورة فاتحہ کے مضامین
سورة فاتحہ سات آیتوں پر مشتمل ہے جن میں سے پہلی تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء ہے اور آخری تین میں انسان کی طرف سے دعاء و درخواست کا مضمون ہے جو رب العزت نے اپنی رحمت سے خود ہی انسان کو سکھایا ہے اور درمیانی ایک آیت میں دونوں چیزیں مشترک ہیں کچھ حمد وثناء کا پہلو ہے کچھ دعاء و درخواست کا،
صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ ؓ منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نماز (یعنی سورة فاتحہ) میرے اور بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے نصف میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے اور جو کچھ میرا بندہ مانگتا ہے وہ اس کو دیا جائے گا پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بندہ جب کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی ہے اور جب وہ کہتا ہے الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف وثناء بیان کی ہے اور جب بندہ کہتا ہے مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے اور جب بندہ کہتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے کیونکہ اس میں ایک پہلو حق تعالیٰ کی حمد وثناء کا ہے اور دوسرا پہلو بندے کی دعاء و درخواست کا اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ میرے بندے کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی پھر جب بندہ کہتا ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ (آخرتک) تو حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ سب میرے بندے کے لئے ہے اور اس کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی (مظہری)