Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 8
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَاِذَا : اور جب حَضَرَ : حاضر ہوں الْقِسْمَةَ : تقسیم کے وقت اُولُوا الْقُرْبٰي : رشتہ دار وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم وَالْمَسٰكِيْنُ : اور مسکین فَارْزُقُوْھُمْ : تو انہیں کھلادو (دیدو) مِّنْهُ : اس سے وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : اچھی
اور جب ترکہ کی تقسیم کے موقع پر کچھ دور کے قرابت دار اور یتیم اور مساکین آحاضر ہوں تو ان کو بھی اس ترکہ میں سے کچھ استحاباً دیدیاکرو اور ان کے ساتھ شیریں کلامی سے بات کیا کرو3
3 اور جب وارثوں میں ترکہ کی تقسیم کے وقت کچھ دور پرے کے رشتہ دار جو اس ترکہ کے مستحق نہ ہوں اور یتیم و مساکین آجائیں اور یہ رشتہ دار اور یتیم و مساکین آموجود ہوں تو ان کو بھی اس ترکہ میں سے استحباباً کچھ دیدیا کرو اور ان رشتہ داروں اور یتامیٰ و مساکین سے خوبی، نرمی اور شیریں کلامی کے ساتھ بات کیا کرو۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جس وقت میراث تقسیم ہو اور برادری کے لوگ جمع ہوں تو جن کو حصہ نہیں پہنچتا اور قرابتی ہیں یا یتیم یا محتاج ہیں تو کچھ کھلا کر رخصت کرو اور بات معقول کہو یعنی جواب سخت نہ دو اور اگر توقع زیادہ کریں تو عذر کرو۔ (موضح القرآن) آیت زیر بحث کا خلاصہ یہ ہے۔ (1) کہ کسی میت کا ترکہ جب کہ وہ ترکہ اس کے ورثاء و مستحقین پر تقسیم کیا جارہا ہو اور ہر وارث کو اس کے شرعی سیام کے موافق مال سنبھلوایا جارہا ہو اس وقت کچھ دور پرے کہ رشتہ دار یہ سمجھ کر آجائیں کہ ہم بھی برادری کے ہیں کچھ ہم کو بھی میت کے مال میں سے ملے گا اسی طرح کچھ یتامیٰ و مساکین یہ سمجھ کر آجائیں کہ مردے کا مال تقسیم ہورہا ہے کچھ ہم کو بھی خیر خیرات کے طور پر ملے گا تو ایسے موقعہ پر ان لوگوں کو بھی اس ترکہ میں سے کچھ کھلا پلا دو یا کچھ تھوڑا بہت دے دو یہ حکم استحبابی ہے وجوبی نہیں۔ (2) ظاہر ہے کہ جو کچھ ان غیر مستحقین کو دیا جائے گا وہ بالغوں کے حصہ میں سے دیا جائے گا۔ میت کے جو وارث نابالغ ہیں ان کے مال میں تصرف نہ کیا جائے گا۔ ہمارے زمانے میں یہ عام دستور ہے کہ مرنے کے بعد میت کے مال میں سے برادری کی دعوت کردیتے ہیں اس دعوت کا نام پھول ہے۔ یا تیجہ رکھتے ہیں اور سب لوگ اس دعوت میں شریک ہوتے ہیں اور کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ یہ دعوت بالغوں کے مال میں سے ہورہی ہے یا نابالغوں کے مال میں سے ہورہی ہے اور اس طرح تقسیم سے پہلے لوگ یتیموں کا حصہ کھالیتے ہیں اور خدا کا خوف نہیں کرتے۔ (3) یہ حکم استحبابی ہے یا وجوبی، اس میں متقدمین کے دو مسلک رہے ہیں کچھ وجوب کے قائل تھے اور کچھ لوگ استحباب کے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول ہے کہ یہ دینا لینا یا کھلانا پلانا اس وقت ہے جب مرنے والا وصیت کرجائے کہ ترکہ کی تقسیم کے وقت اگر غیر مستحق قرابتی اور یتامیٰ و مساکین آجائیں تو ان کو بھی کچھ دیدینا تب دینا ہوگا ورنہ نہیں۔ چناچہ جب حضرت ابوبکر ؓ کے پوتے نے اپنے باپ عبدالرحمن کا ترکہ تقسیم کیا تو اس وقت حضرت عائشہ ؓ زندہ تھیں انہوں نے جب گھر والوں کو تھوڑا تھوڑا دلوایا اور یہی آیت پڑھی۔ واذا حضر القسمۃ۔ عبداللہ بن عباس کو جب یہ واقعہ معلوم ہوا تو انہوں نے فرمایا یہ بات کچھ ٹھیک نہیں ہوئی یہ آیت تو وصیت کے بارے میں ہے اگر عبدالرحمن وصیت کرگیا ہوتا تو ایسا کرنا چاہئے تھا۔ (4) پھر اس میں بھی دو قول ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا یا باقی ہے عبداللہ بن عباس ؓ کا ایک قول یہ ہے کہ آیت میراث نے اس حکم کو منسوخ کردیا اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حکم بحالہ باقی ہے مگر محققین اس کے قائل ہیں کہ وجوب منسوخ ہوگیا استحباب باقی ہے۔ عام اہل علم اور ائمہ اربعہ نسخ کے قائل ہیں اور وہ اس حکم کو منسوخ کہتے ہیں۔ (5) قول معروف کا یہ مطلب ہے کہ نرم کلامی سے پیش آئو اہل قرابت کو کچھ دیکر یہ سمجھائو کہ اس ترکہ میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے اور تم شرعی وارث نہیں ہو اور دوسروں کو کچھ دیکر ان پر احسان نہ رکھو اور ان کو بھی نرمی سے سمجھا دو کہ تم کو جو کچھ دینا تھا وہ دیدیا اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اب آگے یتامیٰ کی ہمدردی اور ان پر شفقت کرنے کی غرض سے ایک تمثیلی واقعہ بیان فرماتے ہیں جو یتیموں کی حفاظت اور ان کے مال کی صیانت کے سلسلے میں اپیل کا بہترین طریقہ ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top