Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 71
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے) (ایمان والو) خُذُوْا : لے لو حِذْرَكُمْ : اپنے بچاؤ (ہتھیار) فَانْفِرُوْا : پھر نکلو ثُبَاتٍ : جدا جدا اَوِ : یا انْفِرُوْا : نکلو (کوچ کرو) جَمِيْعًا : سب
ترجمہ :۔ اے ایمان والو اپنے بچائو کا سامان لے لو پھر جیسا موقع ہو خواہ چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بن کر نکلو یا سب اکٹھے ہو کر نکلو۔1
1 اے ایمان والو ! اپنے بچائو کا سامان لے لو اور جو احتیاطی تدابیر کرسکتے ہو وہ کرلو، پھر کافروں سے جنگ کرنے کی غرض سے خواہ چھوٹی ٹولیاں بنا کر اور چند آدمی مل مل کر نکلو یا سب اکٹھے اور مجتمع ہو کر نکلو یعنی جیسا موقع دیکھو اس کے مطابق نکلو (تیسیر) حذر اور حذر دونوں کے ایک ہی معنی ہیں جیسے اثر اور اثر حذر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے دشمن کے مقابلہ میں اپنا بچائو کیا جائے وہ بچائو ہتھیاروں سے ہو یا ڈھال سے ہو یا اور کسی احتیاطی تدبیر سے ہو سب کو حذر کہا جاتا ہے۔ ثبۃ ایک چھوٹی سی جماعت کو کہتے ہیں جو دس آدمیوں کی یا دس سے زائد کی ہو بعض نے کہا جو جماعت دو سے اوپر ہو اس کو ثبۃ کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں بنا کر دشمن کا مقابلہ کرنے نکلو یا ایک جیش اور لشکر بنا کر کوچ کرو جیسا موقع دیکھو اور جس قسم کی لڑائی ہو اسی قسم کی لشکر میں ترتیب اختیار کرو۔ شاید یاد ہوگا ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ مدینہ منورہ میں کافر اور منافق اہل کتاب جس قسم کی شرارتیں کرتے تھے اور مسلمانوں کی ترقی میں جس طرح رکاوٹ پیدا کرتے تھے اسی قسم کے احکام ان کے مقابلہ کے لئے وقتاً فوقتاً نازل ہوتے تھے اور اس قسم کے جہاد و قتال کے احکام نازل ہونے سے منافقوں کی حقیقت کا خو پتہ چلتا تھا اور مسلمانوں کو اپنے اور بیگانے میں امتیاز ہوجاتا تھا اگرچہ روزمرہ کے معاملات میں بھی منافقوں کی کمزوریاں ظاہر ہوتی رہتی تھیں لیکن جہاد کے موقعہ پر ان کی حالت عجیب و غریب ہوتی تھی اور ان کو اپنا کفر و نفاق چھپانا مشکل ہوجاتا تھا اور نیز یہ کہ کچے اور خام مسلمانوں کا خال معلوم ہوجاتا تھا چناچہ آگے اسی قسم کے لوگوں کا حال مذکور ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی لڑائی میں اپنا بچائو کرنا زرہ کر یا سپر کر یا تدبیر کر یا ہنر کر منع نہیں۔ (موضح القرآن) ہم نے ابھی عرض کیا تھا کہ حذر کا مفہوم بہت عام ہے اس لئے حضرت شاہ صاحب نے سب صورتیں بیان فرما دیں اور احکام الٰہی کی ترتیب کا حسن ملاحظہ ہو کر پہلے بچائو کے سامان کا حکم دیا پھر جہاد کے لئے نکلنے کو فرمایا جو لوگ احتیاطی تدابیر اور سامان کی فراہمی سے بےنیازی برتتے ہیں ان کو غور کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح سامان حفاظت کو خروج پر مقدم فرمایا ہے۔ اب آگے بعض ان لوگوں کا حال ہے جو نکلنے میں توقف اور ٹال مٹول کرتے ہیں اور نتیجہ کا انتظار کرتے ہیں۔ (تسہیل)
Top