Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 65
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
فَلَا وَرَبِّكَ : پس قسم ہے آپ کے رب کی لَا يُؤْمِنُوْنَ : وہ مومن نہ ہوں گے حَتّٰي : جب تک يُحَكِّمُوْكَ : آپ کو منصف بنائیں فِيْمَا : اس میں جو شَجَرَ : جھگڑا اٹھے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر لَا يَجِدُوْا : وہ نہ پائیں فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں حَرَجًا : کوئی تنگی مِّمَّا : اس سے جو قَضَيْتَ : آپ فیصلہ کریں وَيُسَلِّمُوْا : اور تسلیم کرلیں تَسْلِيْمًا : خوشی سے
سو قسم ہے آپ کے رب کی یہ شیطان کو حکم بنانے والے اس وقت تک مومن نہیں ہوں گے جب تک یہ اپنے تمام باہمی جھگڑوں میں آپ ہی کو منصف نہ بنائیں پھر جو فیصلہ آپ کردیں اس پر اپنے دلوں میں کوئی گرانی نہ محسوس کریں اور پوری طرح آپ کے فیصلے کو تسلیم کریں1
1 اور ہم نے کسی رسول کو مبعوث نہیں کیا مگر اس لئے کہ بحکم خداوندی اس کی اطاعت کی جائے یعنی تمام پیغمبروں کی بعثت کا مقصد خاص یہی ہوتا ہے کہ باذن الٰہی ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے اور ان کو مطاع سمجھا جائے اور اگر یہ لوگ اسی وقت جبکہ انہوں نے گناہ کر کے خود اپنے حق میں برائی کی تھی اور اپنے کو نقصان پہنچایا تھا آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور پھر اللہ تعالیٰ کی جناب میں بخشش طلب کرتے اور نادم ہو کر اپنے گناہ کی معافی چاہتے اور رسول بھی ان کے لئے بخشش و مغفرت کے خواستگار ہوتے تو یہ لوگ ضرور اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا اور مہربانی کرنے والا پاتے، پھر قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ اس وقت تک خدا کے نزدیک مومن نہیں ہوں گے اور ایماندار شمار نہیں کئے جائیں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ جو جھگڑا ان کے مابین واقع ہو اس میں آپ ہی کو منصف بنائیں اور سا جھگڑے کا فیصلہ اور تصفیہ آپ ہی سے کرائیں اور جب آپ فیصلہ فرما دیں تو آپ کے فیصلے سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور کوئی گرانی محسوس نہ کریں اور آپ کے فیصلے کو ہر اعتبار سے پوری طرح تسلیم کریں۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ ہر پیغمبر کے بھیجنے کا بڑا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور چونکہ پیغمبر کی اطاعت حضر حق کے حکم اور ان کے منشا کے مطابق ہے اس لئے یہ رسول کی اطاعت بھی خدا ہی کی اطاعت ہے جیسا کہ آگے آجائے گا اور چونکہ پیغمبر کی تشریف آوری کا بڑا مقصد یہی ہوتا ہے اسی لئے ہر پیغمبر نے اپنی تقریر میں فاتقوا اللہ و اطیعون فرمایا جیسا کہ سورة شعراء میں انشاء اللہ آجائے گا اور چونکہ یہ اطاعت منشاء الہی کے موافق ہوتی ہے اس لئے باذن اللہ کی قید کو ظاہر کردیا کہ رسول کی یہ اطاعت بحکم خداوندی ہوتی ہے اس تمہیدی فقرے کے بعد اصل واقعہ کا صحیح حل بتایا کہ طاغوت کے پاس فیصلہ لے جانی کی جس غلطی کا ارتکاب ہوا تھا اس کا علاج یہ نہ تھا کہ جھوٹی قسمیں کھا کر جھوٹ بولیں۔ ان اردنا الا احساناً و توفیقاً بلکہ گناہ کا اصل علاج اور اس غلطی کا اصل حل تو یہ تھا کہ آپ کی خدمت میں نادم ہو کر حاضر ہوتے کفر و نفاق سے توبہ کر کے ایمان لاتے اور جو گناہ ہوا تھا اس کی اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتے ۔ ہم نے ایمان کی شرط اس لئے لگائی کہ ایمان اصل مبنی ہے اگر ایمان نہ لاتے تو منافق اور کافر کا کسی گناہ سے توبہ کرنا کوئی چیز نہیں کفر و نفاق کی موجودگی میں گناہ سے توبہ ناقابل اعتبار ہے۔ بہرحال ! آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ایمان لاتے اور اپنی جانوں پر جو ظلم کیا تھا یعنی طاغوت کے پاس جانے کا گناہ اس سے خدا کی جناب میں استغفار کرتے اور ادھر رسول بھی ان کے لئے استغفار کرتا کیونکہ ان کی اس ناشائستہ حرکت سے جو رسول کو گرانی ہوئی تھی وہ دور ہوجاتی اور وہ بھی ان سے راضی ہو کر ان کے لئے بخشش مانگتا تو ان کا کام بن جاتا اور یہ اللہ تعالیٰ کو تو اب و رحیم پاتے اگرچہ کافر اور عاصی کی توبہ کا معاملہ محض اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے جو گناہگار نادم ہو کر اللہ تعالیٰ کے روبرو توبہ کرے اور پشیمان ہو کر اس سے معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے لیکن اس آیت میں دو باتیں اور زائد بیان فرمائی ہیں ایک حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونا اور دوسرے آپ کا ان کے لئے استغفار کرنا ایک قید کی وجہ تو ظاہر ہی ہے جس کی طرف ہم نے تسہیل میں اشارہ بھی کیا ہے یعنی رسول کے پاس نہ آنا اور طاغوت کے پاس جانا اس کی تلافی کے لئے فرمایا کہ رسول کی خدمت میں حاضر ہوتے اور رسول کو جو اذیت پہنچائی تھی اس کی تلافی اور تدارک کرتے البتہ دوسری قید کہ رسول بھی ان کے لئے بخشش طلب کرتا تو اس کے لئے لوگوں نے مختلف وجوہ بیان کئے ہیں لیکن ایک سیدھی اور آسان بات یہ ہے کہ آپ ک استغفار کرنا اور ان کے لئے بخشش طلب کرنا آپ کے راضی ہونے کی دلیل ہوگی اور یہ معلوم ہو سکے گا کہ پیغمبر کو جو تکلیف پہونچی تھی وہ اس نے معاف کردی۔ یا یوں کہا جائے کہ پیغمبر کا استغفار توبہ کے لئے کوئی لازمی شرط نہ تھی بلکہ ان کے لئے توفیق توبہ کی زیادتی اور صحیح توبہ کا سبب تھی، بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ پیغمبر کا استغفار نفس توبہ کی قید نہیں ہے۔ بلکہ کامل توبہ کی قید ہے۔ (واللہ اعلم) بہرحال کسی بزرگ سے استغفار کی درخواست کرنا اور اپنی توبہ کے ساتھ اس کو بھی اپنے لئے استغفار میں شریک کرلینا اس کے لئے موجب برکت اور موجب قبولیت اور موجب تقویت ہونے سے انکار نہیں کہا جاسکتا اگرچہ نفس توبہ کے لئے ضروری نہ ہو۔ دوسری آیت میں ایک مکمل ضابطہ فرمایا اور اپنی ذات کی قسم کھا کر اس کو موکد فرمایا مطلب یہ ہے کہ یہ طاغوت کو حکم بنانے والے اور جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے کو مسلمان ظاہر کرنے والے اس وقت تک خدا کے نزدیک مسلمان نہیں ہوسکتے اور اس وقت تک ان کا ایمان خدا کے ہاں معتبر نہیں ہوسکتا جب تک یہ لوگ اس امر کی پابندی نہ کریں کہ آپس کا کوئی جھگڑا خواہ وہ جانی ہو یا مالی یا کوئی اور چھوٹا بڑا قصہ ہو۔ غرض جو قضیہ اور جھگڑا ہو اس میں آپ ہی کو حکم بنائیں اور اس جھگڑے کا فیصلہ آپ ہی سے کرائیں اور آپ کی شریعت اور آپ کے قانون کے موافق اس جھگڑے کو طے کرائیں اور جو کچھ آپ طے کردیں اس پر دل تنگ نہ ہوں۔ دل کی تنگی اور عدم ضیق کا یہ مطلب کہ ان کا قلب اس فیصلے سے مطمئن ہو یہ خیال نہ کریں آپ نے حق کے خلاف فیصلہ کیا یا آپ نے فیصلے میں خیانت کی۔ باقی رہی وہ تنگی اور گرانی جو اپنے خلاف فیصلہ سن کر دل پر ہوتی ہے وہ ایک طبعی اور فطری چیز ہے جو کسی حج کا فیصلہ اپنے خلاف سن کر قلب پر ایک اثر پڑتا ہے وہ دوسری چیز ہے۔ یہاں مراد معاندانہ اور منکرانہ تنگی ہے اور شک و شبہ ہے جو شکی لوگوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے اسی لئے حضرت مجاہد نے ضیق کی تفسیر شک سے کی ہے، تسلیم سے مراد انقیاد یعنی بلاکسی ناگواری کے رغبت کے ساتھ ظاہراً اور باطناً اطاعت و فرمانبرداری کے جذبے سے آپ کے فیصلے کو قبول کریں جب تک یہ طریقہ اختیار نہ کریں گے یہ لوگ مومن نہ ہوں گے اور بارگاہ خداوندی میں ان لوگوں کا شمار مومنوں میں نہیں ہوگا۔ ہم نے جو شریعت اور قانون کا لفظ استعمال کیا ہے وہ اس لئے کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کو حکم بنانے کا مطلب آپ کی شریعت اور آپ کے قوانین کی جانب رجوع کرنا ہے۔ بعض مفسرین نے آیت فلا و ربک لایئومنون کے تحت ایک واقعہ حضرت زبیر اور ایک انصاری کا نقل کیا ہے اور اس آیت کا شان نزول اس قصے کو قرار دیا ہے قصہ کا خلاصہ اس قدر ہے کہ پانی حاصل کرنے پر ان دونوں کا قصہ تھا زبیر کا کھیت بالائی حصے میں تھا اور اس انصاری کا کھیت نیچے کے حصے میں تھا نبی کریم ﷺ نے زبیر کے حق میں فیصلہ دیا کہ زبیر اپنے کھیت میں پہلے پانی لے اور پھر پانی کو نیچے کے کھیت میں جانے کے لئے چھوڑ دے اس پر فریق ثانی کے منہ سے یہ نکل گیا کہ زبیر آپ کی پھوپھی کا لڑکا ہے اس لئے ایسا فیصلہ کیا ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے غضب آلود لہجہ میں فرمایا ، زبیر تو اپنی زمین کو پانی پلا اور پانی کو روک لے یہاں تک کہ تیرے کھیت کی مینڈھ تک پانی پہنچ جائے ۔ جب یہ دونوں فریق حضور ﷺ کے پاس سے نکلے اور مقداد نے ان سے دریافت کیا تو اس انصاری نے استہزاًء کہا کہ اپنی پھوپھی کے بیٹے کے لئے فیصلہ کردیا اور پانی کا حق اس کو دلوا دیا اس انصاری کی بات کو سن کر ایک یہودی نے کہا جو حضرت مقداز کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ خدا ان لوگوں کو ہلاک کرے کہ یہ ان کے رسول اللہ ہونے کی شہادت دیتے ہیں اور پھر ان کے فیصلے پر معترض بھی ہوتے ہیں اور ان پر طرف داری کا الزام لگاتے ہیں۔ خدا کی قسم ہم نے موسیٰ کی زندگی میں ایک گناہ کیا تھا اس پر موسیٰ نے ہم کو بلا کر کہا کہ تمہاری توبہ اس وقت قبول ہوگی جب تم اپنے آپ کو قتل کرو گے چناچہ ایسا ہی ہوا اور ہم میں سے ستر ہزار آدمی قتل ہوئے تب ہماری توبہ قبول ہوئی اور ہم نے اپنے پروردگار کی رضامندی حاصل کی۔ حضرت زبیر کا یہ مقابل جس کو انصاری کہا اجتا ہے شاید کوئی منافق ہوگا بہرحال شان نزول کا اگر یہ واقعہ بھی ہو تب بھی ہماری گذارش کے منافی نہیں کیونکہ یہ آیتیں مسلسل منافقوں کی کمزوری کے بیان میں ہیں اور خاص طور پر حضور ﷺ کے بعض فیصلوں پر اعتراض کرنے پر اور حضور ﷺ کی بجائے غیروں کو حکم بنانے پر جن کمزوریوں کا ان کی جانب سے اظہار ہوتا تھا ان آیتوں میں ان کا رد ہے اب آگے صحیح اطاعت کرنے والوں کے فوائد اور ان منافع کا ذکر ہے جو کامل فرمانبرداروں کو ملنے والے ہیں۔ (تسہیل)
Top