Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 61
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَى الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًاۚ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَھُمْ : انہیں تَعَالَوْا : آؤ اِلٰى : طرف مَآ اَنْزَلَ : جو نازل کیا اللّٰهُ : اللہ وَاِلَى : اور طرف الرَّسُوْلِ : رسول رَاَيْتَ : آپ دیکھیں گے الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین يَصُدُّوْنَ : ہٹتے ہیں عَنْكَ : آپ سے صُدُوْدًا : رک کر
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کی طرف اور رسول کی طرف آئو تو آپ ان منافقوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپ سے انتہائی اعراض کرتے ہیں۔1
1 اے پیغمبر ﷺ ! کیا آپ نے ان لوگوں کو ملاحظہ نہیں کیا جو اپنی زبانوں سے تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ پر نازل ہوا ہے وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں یعنی قرآن پر ہمارا ایمان ہے اور وہ ان کتابوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ سے پہلے نازل کی گئی ہیں یعنی توریت و انجیل پر بھی ہمارا اعتقاد ہے لیکن ان دعاویٰ اور اس کہنے کے باوجود ان کا حال یہ ہے کہ وہ لوگ اپنے مقدمات کا شیطان سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں اور اپنے مقدمات شیطان کے پاس لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ ان کو یہ حکم دیا جا چکا ہے کہ وہ شیطان کو نہ مانیں اور اس شیطان پر اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان کی خواہش تو یہ ہے اور وہ تو یہ چاہتا ہے کہ ان کو گمراہ کر کے اور بھٹکا کے صحیح راہ سے دور لیجا ڈالے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کی طرف آئو اور رسول اللہ ﷺ کی طرف آئو کہ وہ اس قانون کے موافق تمہارا فیصلہ کردیں تو آپ ان منافقین کو ملاحظہ کرتے ہیں کہ وہ آپ سے بالکل پہلو تہی اور انتہائی اعراض کرتے ہیں۔ (تیسیر) شان نزول کے سلسلے میں کئی باتیں بیان کی جاتی ہیں ایک تو وہی مشہور واقعہ ہے جو حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ کسی منافق کا ایک یہودی کے ساتھ کچھ جھگڑا تھا یہودی کی خواہش تھی کہ مقدمہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ منافق کہتا تھا کعب بن اشرف جو بڑا معتصب اور یہود میں رئیس تھا یہ مقدمہ اس کے پاس لے جایا جائے چونکہ کعب بن اشرف بڑا راشی تھا سا لئے منافق سمجھتا تھا کہ وہاں کچھ دے دلا کر اپنے حق میں فیصلہ کرا لوں گا۔ یہودی جانتا تھا کہ صحیح انصاف نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے ہاں ہوگا اس لئے وہ زور دیتا تھا منافق نے خیال کیا اگر میں انکار کروں گا تو میرا بھانڈا پھوٹ جائیگا کیونکہ مجھ کو مسلمان سمجھا جاتا ہے۔ بالآخر معاملہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا حضور ﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ کردیا منافق نے باہر نکل کر کہا میں تو اس فیصلے کو نہیں مانتا میں تو حضرت عمر ؓ سے فیصلہ کر ائوں گا۔ چنانچہ دونوں حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت عمر کو تمام واقعہ سنایا حضرت عمر ؓ نے فرمایا ٹھہر جائو میں فیصلہ کرتا ہوں یہ کہہ کر اندر گئے اور تلوار لا کر منافق کا سراڑا دیا اور فرمایا رسول ﷺ کا جو فیصلہ نہ مانے اس کا یہی فیصلہ ہے۔ اس واقعہ کے بعد حضرت عمر ؓ کا لقب فاروق رکھا گیا اس منافق کے رشتہ دار حضرت عمر کے اس فعل پر بہت چراغ پا ہوئے حضور ﷺ کی خدمت میں قصاص کا مطالبہ کرتے ہوئے آئے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اس منافق کا نام بشر بتایا جاتا ہے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ابو برزہ اسلمی ایک کاہن تھا جس کو یہودی حکم بنایا کرتے تھے بعض مسلمان بھی اس کا ہن کو حکم بنانے کے لئے آمادہ ہوگئے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ حضرت ابن عباس کا ایک قول یہ ہے کہ حلاس بن صامت اور معتب بن قشیر اور رافع بن زید اور بشر یہ سب لوگ اسلام کے مدعی تھے ایک جھگڑے میں جو یہود کے ساتھ پیش آیا یہود یہ چاہتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ سے فیصلہ کرائیں اور یہ مدعیان اسلام کہتے تھے کہ کاہن کے پاس چلو ہم ان احکام سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں جو زمانہ جاہلیت سے حکام چلے آتے ہیں۔ اسی طرح اور بھی بعض واقعات کو نزول کا سبب قرار دیا گیا ہے اور یہ ہوسکتا ہے کہ یہ تمام واقعات ان آیات کے نزول کا سبب ہوں۔ طاغوت کی تحقیق ہم اوپر کئی دفعہ بیان کرچکے ہیں یہاں شیطان ترجمہ کیا ہے ہر شخص جو نافرمان اور سرکش ہو اس کو طاغوت کہا جاتا یہاں مراد وہ شخص ہے جو اسلامی قانون کے خلاف فیصلہ کرے خواہ وہ کعب بن اشرف ہو یا ابو برزہ کاہن ہو یا کسی طاغوتی حکومت کا اور کوئی حاکم ہو جو خلاف ما انزل اللہ فیصلہ کرے وہ طاغوت ہے طاغوت کو حکم بنانا یا اس کے پاس مقدمات لے جانے کو دو وجہ سے منع فرمایا ایک تو یہ کہ طاغوت یعنی شیطان کے نہ ماننے کا حکم دیا گیا ہے اور جب اس کے نہ ماننے کا حکم ہے تو ہر اعتبار سے اس کی مخالفت کرنی چاہئے۔ دوسرے یہ کہ شیطان تمہارا دشمن ہے تم کو راہ حق سے گمراہ کر کے دور پھینکنا چاہتا ہے یعنی ایسا گمراہ کرنا چاہتا ہے اور سیدھی راہ سے ہٹا کر اتنی دور لے جانا چاہتا ہے کہ پھر راہ حق ڈھونڈنے سے بھی نہ پائو لہٰذا ایسے دشمن سے پرہیز کرنا چاہئے چہ جائے کہ تم اس کو فصل خصوصیات کا حق دیتے ہو اور اپنے کو مسلمان کہتے ہو یہ تو کھلا ہوا نفاق ہے۔ آگے ان کی پہلوتہی کو صراحتۃ ذکر فرمایا کہ جب ان کو قرآن اور رسول کی طرف آنے کی طرف آنے کی دعوت دی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ما انزل اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی جانب آئو تو آپ اس وقت منافقوں کو دیکھتے ہوں گے کہ وہ اس دعوت پر نہ صرف بےالتفاقی کرتے ہیں بلکہ آپ سے اعراض اور پہلو بچانے کی کوشش کرتے ہیں صد اور صدودا دونوں کے معنی اعراض کرنے اور پہلو بچانے کے ہیں۔ آگے اس مقتول منافق کے اولیاء کے آنے کا اور عذر معذرت کا ذکر فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top