Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 30
وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْهِ نَارًا١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا
وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے گا ذٰلِكَ : یہ عُدْوَانًا : سرکشی (زرد) وَّظُلْمًا : اور ظلم سے فَسَوْفَ : پس عنقریب نُصْلِيْهِ : اس کو ڈالیں گے نَارًا : آگ وَكَانَ : اور ہے ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ يَسِيْرًا : آسان
اور جو شخص بطور زیادتی اور ظلم ان افعال ممنوعہ کا ارتکاب کرے گا تو عنقریب اس کو آگ میں داخل کریں گے اور ایسا کرنا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے1
1 اے ایمان والو ! تم آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق اور غیر شرعی طور مت کھائو اور ان کو مت استعمال کرو مگر ہاں وہ مال جو آپس کی تجارت اور خریدوفروخت سے باہمی رضامندی کے ساتھ ہو تو اس کے کھانے اور استعمال کرنے میں مضائقہ نہیں اور دیکھو تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر بڑی مہربانی کرنے والا ہے اور جو شخص ازراہِ زیادتی اور ظلم ان افعال ممنوعہ کا ارتکاب کرے گا تو ہم عنقریب اس کو جہنم کی آگ میں داخل کریں گے اور یہ سزا دینا اور کسی مجرم کو جہنم کی آگ میں داخل کرنا اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان اور بہت سہل ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ یتامیٰ اور بیوگان کے مال پر کیا موقوف ہے کہ کوئی مال بھی جو غیر مباح طور پر حاصل ہو وہ نہ کھائو اس کا کھانا حرام ہے۔ باطل کے معنی ہم نے غیر شرعی کئے ہیں تاکہ غیر مباح اور مکروہ اور حرام وغیرہ سب کو شامل ہوجائے۔ البتہ ان اموال کے کھانے کی اجازت ہے جو مثلاً کسی تجارت کے ذریعہ حاصل ہوں اور وہ تجارت بھی باہمی رضامندی کے ساتھ ہو اس میں مبادلۃ المال بالمال کے دوسرے عقود بھی داخل ہوگئے بشرطیکہ یہ تجارت اور دوسرے معاملات قواعدِ شرعیہ کی پابندی کے ساتھ کئے جائیں جس معاملہ میں شرعی احکام کی پابندی کو نظر انداز کردیا جائے گا وہی باطل میں داخل ہوجائے گا اور اس کا کھانا اور برتنا حرام ہوگا۔ یہاں بھی مال کے ساتھ کھانا فرمایا کیونکہ مال کے اہم منافع اور مقاصد میں کھانے پینے کو بڑا دخل ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی کئی مرتبہ عرض کرچکے ہیں۔ اور اسی لئے ہم نے کھانے کے ساتھ استعمال کرنے کا لفظ بڑھادیا ہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ حرام کا مال صرف کھانا ہی حرام نہیں بلکہ کسی اور مصرف میں استعمال کرنا بھی حرام ہے۔ لاتقتلوا انفسکم سے مراد خودکشی تو ظاہر ہی ہے اور یہ اسلام کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے دنیا کی تمام قوموں کو خودکشی کی برائی سے آگاہ کیا ورنہ دنیا کی تہذیبیں اس کو جرم ہی نہیں سمجھتی تھیں اور جان کو اپنا سمجھ کر اس کو تلف کردینا اپنا قانونی حق خیال کرتی تھیں۔ یہ بات اسلام نے ظاہر کی کہ اپنی جان کو تلف کردینا بھی جرم ہے۔ جیسا کہ احادیث میں تفصیل موجود ہے کہ جو شخص اپنی جان کو چھری سے قتل کرے گا یا پہاڑ سے گرا کر اپنے کو ہلاک کرے گا یا کسی اور دھار دار چیز سے خودکشی کرے گا تو وہ قیامت تک عالم برزخ میں اسی قتل قتل کیا جاتا رہے گا۔ اور اگر ولا تقتلوا انفسکم کا مطلب یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو کیونکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو قتل کرنا بھی اپنے ہی کو قتل کرنا ہے تو اس کی حرمت اور گناہ تو ظاہر ہی ہے۔ جیسا کہ اسی پارے میں اس کی تفصیل آجائے گی۔ اور یہ واقعی اللہ تعالیٰ کی بڑی مہربانی اور بندہ نوازی ہے کہ اس نے انسان کی جان کو تلف کرنے سے روکنے کی شکل نکالی اور ایسا قانون بنادیا جس سے قتل کو جرم قرار دیا گیا۔ آگے مزید تنبیہ فرمائی کہ جو مذکورہ بالا گناہ کا ارتکاب کرے گا اور ارتکاب بھی ظلم و عدو ان کے طور پر کرے گا۔ تو اس کو جہنم میں داخل کیا جائے گا اگرچہ دخول جہنم قیامت کے دن ہوگا لیکن قیامت چونکہ کچھ دور نہیں ہے اس لئے عنقریب فرمایا۔ عدوان کے معنی حد سے تجاوز کرنا ہے ہم نے اس کا ترجمہ زیادتی کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی کا مال زیادتی اور ظلم سے کھالیا یا کسی کو ظلم اور زیادتی سے قتل کردیا یا کسی وارث کی میراث کو ظلم اور زیادتی سے دبا لیا یا کسی کی منکوحہ کو ظلم و زیادتی سے لے بھاگا تو ایسے لوگوں کی سزا جہنم ہے۔ بعض مفسرین نے اس وعید کا تعلق صرف قتل سے بیان کیا ہے ہوسکتا ہے کہ قتل نفس کی اہمیت کے لحاظ سے صرف قتل ہی پر وعیدفرمائی ہو اگرچہ عموم بہتر ہے۔ بہرحال اس صورت میں عدوان کا مطلب یہ ہوگا کہ قتل خطا اور غلطی سے نہ ہو یعنی مارتا تھا کسی اور کو اور تیر کسی اور کو لگ گیا یا کسی حاکم نے کوئی غلط فیصلہ کردیا اور ایک بےگناہ کو پھانسی ہوگیء بلکہ قصداً زیادتی اور ظلم سے کسی کو ناحق قتل کیا ہو تو اس وعید کا مستحق ہوگا اور دوزخ میں ڈال دینا اور آگ میں داخل کردینا اللہ تعالیٰ کو کچھ شکل نہیں خواہ کوئی کافر ہو یا عاصی مسلمان ہو بلکہ یہ جہنم کی سزا دینا اس پر بالکل آسان اور سہل ہے جہنم کو اس نے اس کام کے لئے پیدا کررکھا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی مغرور نہ ہو کہ ہم مسلمان دوزخ میں کیونکر جائیں گے اللہ پر یہ بھی آسان ہے۔ (موضع القرآن) خلاصہ یہ کہ قانون کی خلاف ورزی بہرحال خلاف ورزی ہے۔ کوئی مسلمان ہو یا کافر۔ اگر کوئی مسلمان فاسق ہو اور توبہ کرکے نہ مرا ہو تو بہرحال وہ سزا کا مستحق ہے اور جب تک اہل حق معاف نہ کرے نجات کی کوئی صورت نہیں قتل بلا عمدہ وغیرہ کی تفصیل انشاء اللہ آگے آجائے گی۔ اب آگے آیت میں عام کباتر سے بچنے کی ترغیب مذکور ہے کہ اگر تم لوگ کبائر سے بچتے رہو گے خواہ وہ مذکورہ ہوں یا غیرمذکورہ تو تم کو اس سے بہت فائدہ پہنچے گا۔ اوپر کی آیت میں کبائر کے ارتکاب پر ترہیب تھی اب کبائر سے بچنے پر ترغیب ہے۔ (تسہیل)
Top