Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 14
وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ یُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیْهَا١۪ وَ لَهٗ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يَّعْصِ : نافرمانی اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَيَتَعَدَّ : اور بڑھ جائے حُدُوْدَهٗ : اس کی حدیں يُدْخِلْهُ : وہ اسے داخل کرے گا نَارًا : آگ خَالِدًا : ہمیشہ رہے گا فِيْھَا : اس میں وَلَهٗ : اور اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب مُّهِيْنٌ : ذلیل کرنے والا
اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اللہ کی مقررہ حدود سے تجاوز کرنے پر اصرار کرے گا تو خدا تعالیٰ اس کو آگ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو توہین آمیز عذاب ہوگا1
1 یہ تمام احکام مذکورہ اللہ تعالیٰ کی باندھی ہوئی حدیں اور اس کے مقرر کردہ ضابطے ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی صحیح اطاعت و فرمانبرداری کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسے باغوں میں ابتداً ہی داخل کردے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی یہ لوگ ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بغیر کسی عذاب کے ابتداً جنت میں داخل ہوجانا اور وہاں ہمیشہ رہنا بہت بڑی کامیابی ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اللہ و رسول کا کہنا نہ مانے گا اور اس کی باندھی ہوئی حدوں کو توڑ کر بڑھ جائے گا اور اس کے مقررہ ضابطوں سے تجاوز کرنے پر اصرار کرے گا اور اس کے قوانین کی بالکل خلاف ورزی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ میں داخل کردے گا۔ اور اس کا یہ حال ہوگا کہ وہ اس آگ میں ہمیشہ ہمیش پڑا رہے گا اور اس کو ذلت و اہانت آمیز اور رسوا کن عذاب ہوگا۔ (تیسیر) ان دونوں آیتوں میں مخلص مسلمان اور کامل کافر کا ذکر ہے۔ اسی رعایت سے ہم نے تیسیر میں اپنے ترجمہ کا خلاصہ کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمان جو اعتقاد اور عمل دونوں کے اعتبار سے صحیح راہ پر قائم ہے وہ تو بغیر کسی عذاب کے ابتداً ہی جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ اور جنت اس کا ہمیشہ کیلئے مسکن اور قرار گاہ ہوگی اور جو کافر ہے یعنی اعتقاداً اور عملاً ہر اعتبار سے کفر پر قائم ہے تو اس کا ٹھکانہ دائمی طور پر جہنم ہے۔ رہے وہ لوگ جو اعتقاد مسلمان ہیں اور ان کے اعمال اسلامی نہ ہوں اور ان سے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہوں ان کے لئے عذاب کے بعد آخر میں نجات ہے۔ یہ بحث پہلے پارے میں تفصیل کے ساتھ گزر چکی ہے۔ رہی یہ بات کہ کسی کا اعتقاد غیر اسلامی ہو لیکن عمل اچھے ہوں تو ایسا شخص بھی کافر ہے سو یہ بحث بھی پہلے پارے میں آچکی ہے کہ اعتقاد اعمال کا بنی ہے اگر کسی کا اعتقاد صحیح نہیں ہے تو اس کے سب اعمال کا رت ہیں۔ بہرحال ! میراث اور یتامیٰ کی بحث کو ان دو آیتوں پر ختم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ معاملات نہایت اہم اور بہت ہی غور طلب ہیں۔ یتامیٰ کی اور ان کے مال کی حفاظت اور ورثاء کے حصص کی صحیح تقسیم یہ ایسے امور ہیں کہ ان میں کوتاہی کبیرہ گناہ ہے اور قرآن کریم کے مقابلہ میں خاندانی رسوم اور خاندانی رواج کو ترجیح دینا اور ان پر اڑنا کفر ہے۔ جیسا کہ لڑکیوں کے ترکہ میں بعض ہندوستان کے خاندان شریعت کے مقابلہ میں رواج کو ترجیح دے رہے ہیں اور اس گناہ سے تائب ہونے کو تیار نہیں ہیں اور لڑکیوں کا حق ان کو دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ابن ماجہ نے حضرت انس ؓ سے مرفوعاً نقل کیا ہے جس نے کسی وارث کی میراث کو قطع کیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث کو قطع کردے گا۔ بخاری اور مسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ ان کی بیماری میں عیادت کی غرض سے ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ﷺ میرے پاس مال بہت ہے اور فقط ایک بیٹی وارث ہے تو کیا میں اپنا دو ثلث مال خیرات کرسکتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا نہیں انہوں نے کہا اچھا آدھا مال دے سکتا ہوں آپ نے فرمایا نہیں انہوں نے عرض کی اچھا ایک ثلث فرمایا ہاں ایک ثلث خیرات کرسکتا ہے اور ثلث بھی بہت ہے اگر تو اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ کر مرے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ ان کو محتاج چھوڑ کر مرے جو لوگوں سے مانگتے پھریں۔ مطلب یہ ہے کہ ورثاء کیلئے مال چھوڑ کر مرنا اس سے بہتر ہے کہ تو وصیت کرکے اپنی دولت ختم کرجائے اور ورثاء محتاج رہ جائیں۔ حضرت معاذ بن جبل کا قول ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مالوں کی تہائی تم پر صدقہ کردی ہے کہ تم اپنی نیکیاں زیادہ بڑھالو۔ یعنی تیسرا حصہ تمہارے مالوں کا تمہارے لئے چھوڑ دیا ہے کہ تم وصیت کرکے اپنی نیکیاں بڑھالو۔ ہر چند کہ ایک ثلث کی وصیت کرنا جائز ہے لیکن صحابہ ؓ کا عام رجحان یہی ہے کہ وصیت ثلث سے بھی کم ہو تو بہتر ہے۔ شاید یاد ہوگا ہم دوسرے پارے میں عرض کرچکے ہیں کہ میراث کے احکام جاری ہونے سے قبل ورثاء کیلئے وصیت جائز تھی لیکن جب ہر وارث کا حصہ مقرر کردیا گیا تو اب کسی وارث کیلئے وصیت جائز نہیں ہے اگر کوئی وارث کے حق میں وصیت کرجائے گا تو وہ وصیت نافذ نہ ہوگی۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ قرآن کریم نے جو حصے بیان کئے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے۔ آدھا، چوتھائی، آٹھ عورتیں چار مردیہ ہیں باپ، دادا، زوج یعنی خاوند اور ماں شریک بھائی، آٹھ عورتیں یہ ہیں۔ بیوی، بیٹی، پوتی، حقیقی بہن، علاتی بہن، اخیانی بہن، والدہ اور جد صحیحہ یعنی دادی۔ یہ بارہ قسمیں ذوی الفروض کہلاتی ہیں اس کے بعد عصبات ہیں ان میں شریعت کا یہ قاعدہ ہے کہ جو میت سے قریب تر ہوگا وہ دوسروں پر مقدم ہوگا۔ ذوی الفروض سے اگر کچھ بچ جائے تو اس کا حقدارعصبہ ہوتا ہے۔ البتہ باپ ذوی الفروض بھی ہے اور بعض صورتوں میں عصبہ بھی ہوتا ہے اگر عصبات نہ ہوں تو پھر ذوی الارحام مستحق ہوتے ہیں باقی تفصیل فرائض کی کتابوں سے معلوم کیجئے یا مقامی علماء سے دریافت کیجئے۔ اب آگے عورتوں کے حقوق اور ان کے احکام مذکور ہیں چونکہ زمانۂ جاہلیت میں یتامیٰ کے ساتھ اور اہل میراث کے ساتھ جس طرح غیر منصفانہ اور جابرانہ سلوک ہونا تھا۔ اسی طرح عورتوں کے ساتھ بھی سخت ناانصافی کا برتائو کیا جاتا تھا۔ جیسا کہ ہندوستان کی کافر قوموں میں اب تک وہ وحشیانہ سلوک موجود ہے اور مسلمانوں کی بعض ان قوموں میں بھی وہ غیر منصفانہ طریقے عورتوں کے ساتھ برتے جاتے ہیں جو اس ترقی کے دور میں بھی کافرانہ رسموں میں مبتلا ہیں عورتوں کے یہ احکام تقریباً تین چار رکوع تک مسلسل بیان ہوئے ہیں۔ البتہ کسی خاص مناسبت سے درمیان میں بعض اور باتیں بھی آگئی ہیں جیسا کہ قرآن کریم کی بلاغت کا قاعدہ اور کلام الٰہی کی خاص خوبی ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top