Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 116
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يَغْفِرُ : نہیں بخشتا اَنْ يُّشْرَكَ : کہ شریک ٹھہرایا جائے بِهٖ : اس کا وَيَغْفِرُ : اور بخشے گا مَا : جو دُوْنَ : سوا ذٰلِكَ : اس لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَمَنْ : اور جس يُّشْرِكْ : شریک ٹھہرایا بِاللّٰهِ : اللہ کا فَقَدْ ضَلَّ : سو گمراہ ہوا ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور شرک سے کم درجے کے گناہوں کو جس کے لئے جو چاہے بخشدے گا اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا2
2 بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے خواہ اس کی ذات میں یا اس کی صفات مختصہ میں اور شرک سے کم درجے کے گناہوں کو خواہ وہ صغیر ہوں یا کبیرہ جس کے لئے وہ چاہے گا ان کو بخشدے گا اور بالکل سزا نہیں دے گا اور بات بھی یہ ہے کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کیا خواہ وہ شرک ذاتی ہو یا صفاتی یقینا ایسی گمراہی میں جا پڑا جو راہ حق سے بہت دور ہے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اوپر سے ذکر تھا منافقوں کا جو پیغمبر کے حکم پر راضی نہ ہو اور جدی راہ چلے یہ آیت فرمائی کہ اللہ شرک نہیں بخشتا تو شرک فرمایا حکم میں شریک کرنے کو یعنی سوائے دین اسلام کے اور دین پسند رکھے اور اس پر چلے پس جو دین ہے سوا اسلام کے سب شرک ہے اگرچہ پوجنے میں شرک نہ کرتے ہوں (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب نے خوب تقریر فرمائی یعنی اوپر پیغمبر کے حکم پر نہ چلنے کا ذکر تھا جیسے عام طور پر منافق کرتے ہیں یا اس واقعہ خاص میں بشیر نے یا طعمہ نے کیا اور اب آگے اللہ کے حکم میں شریک کرنے کا ذکر ہے یعنی حقیقی امر تو اللہ تعالیٰ ہے اور اس کا حکم ہے کہ تمہارا دین اسلام ہونا چاہئے۔ اب کوئی شخص یہ حکم نہ مانے اور کوئی دوسرا دین قبول کرلے تب بھی وہ مشرک ہے خواہ کسی بت کو سجدہ نہ کرے شاہ صاحب کے حاشیہ کو غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ شاہ صاحب کی مساعی کو مشکور فرمائے آیت کا مطلب یہ ہے کہ مشرک کسی درجہ کا بھی ہو وہ باوجود سزا کے بھی نہیں بخش دے گا اور جو شخص شرک کا مرتکب ہوا اور جس بدبخت نے اللہ تعالیٰ کے استھ شرک کیا خواہ اس کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک کیا خواہ اس کے حکم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کا حکم مانا یا اللہ تعالیٰ کی صفات مختصہ میں کسی کو شریک مقرر کیا تو ایسا شخص انتہائی گمراہی میں جا پڑا اور ایسی گمراہی میں چلا گیا جو سیدھی راہ سے بہت دور ہے یعنی کوئی شخص سیدھی سڑک سے ذرا دائیں بائیں ہوجائے تو سیدھی راہ اختیار کرلینے کی توقع ہوتی ہے لیکن جو میلوں اور کوسوں دور چلا جائے وہ کس طرح سیدھی سڑک پر آسکتا ہے … شرک اس قدر مذموم ہے کہ آج کل ہر تہذیب میں اس کو برا سمجھا جاتا ہے یہاں تک کہ مشرک بھی شرک کو برا کہکتے ہیں اور چونکہ شرک ہر اعتبار سے قابل مذمت اور اللہ تعالیٰ کی توہین و اہانت ہے اس لئے اس جرم کو ناقابل معافی فرمایا اور حضرت شاہ صاحب نے یہ بات بھی صاف کردی کہ کفر اور شرک کا ایک ہی حکم ہے کیونکہ کفر بھی شرک کے ساتھ علت میں مشترک ہے جس طرح شرک واجب الوجود کی اہانت ہے اسی طرح کفر میں بھی شرک کے ساتھ علت میں مشترک ہے جس طرح شرک واجب الوجود کی اہانت ہے اسی طرح کفر میں بھی واجب الوجود کے کسی نہ کسی حکم کا انکار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے انکار ہی کو کفر کہتے ہیں اور ایسے کافر بھی ہیں جو واجب الوجود کی ذات ہی کا انکار کرتے ہیں تو خواہ کوئی اللہ تعالیٰ کی ذات کا منکر اور کسی صفت کا منکر ہو یا واجب الوجود کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا کر اس کی توہین کرتا ہو ان سب کا حکم ایک ہی ہے آگے مشرکین کی حالت کا مزید بیان ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top