Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 76
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ قَالُوْۤا اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ لِیُحَآجُّوْكُمْ بِهٖ عِنْدَ رَبِّكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
وَاِذَا لَقُوا : اور جب وہ ملتے ہیں الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوْا : وہ کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاِذَا : اور جب خَلَا : اکیلے ہوتے ہیں بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اِلٰى۔ بَعْضٍ : پاس۔ بعض قَالُوْا : کہتے ہیں اَتُحَدِّثُوْنَهُمْ : کیا بتلاتے ہوا نہیں بِمَا فَتَحَ اللّٰهُ : جو اللہ نے ظاہر کیا عَلَيْكُمْ : تم پر لِيُحَاجُّوْكُمْ : تاکہ وہ حجت تم پر لائیں بِهٖ : اس کے ذریعہ عِنْدَ : سامنے رَبِّكُمْ : تمہارا رب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم نہیں سمجھتے
اور منافقین یہود جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی مسلمان ہوگئے ہیں اور جب تنہائی میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کافر یہود و منافقین یہود سے کہتے ہیں کہ تم مسلمانوں کو توریت کی وہ باتیں کیوں بتایا کرتے ہو جو اللہ نے تم پر کھول رکھی ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مسلمان ان باتوں کی وجہ سے تمہارے رب کے سامنے تم پر الزام قائم کردیں کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔3
3 کیا اے مسلمانو ! تم اب بھی اس کی امید کرتے ہو کہ یہ یہودی تمہاری بات مان لیں گے اور تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے حلاان کہ ان میں تو کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اللہ تعالیٰ کا کلام سنتے تھے پھر اس کو سمجھنے کے بعد اس میں تحریف و تغیر کردیا کرتے تھے اور اس کلام کو کچھ کا کچھ کر ڈالتے تھے اور کمال یہ ہے کہ اس فعل کی برائی کو جانتے بھی تھے اور جب ان یہودیوں کے منافق لوگ اہل ایمان حضرات سے ملتے ہیں تو اپنے ایمان کا اقرار اور اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور جب یہ آپس میں ایک دوسرے کے پاس تنہا ہوتے ہیں اور تنہائی میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو دوسرے کافر یہودی ان منافق یہودیوں سے کہتے ہیں کہ تم توریت کی وہ باتیں جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کھول رکھی ہیں، مسلمانوں کو کیوں بتا دیتے ہو۔ اس کا انجام یہ ہوگا کہ مسلمان تمہاری رب کے روبرو قیامت میں ان ہی باتوں کی وجہ سے جو تم ان کو بتاتے ہو تم پر الزام قائم کردیں گے اور تم کو خدا کے سامنے مغلوب کردیں گے کیا تم لوگ اتنی صاف بات بھی نہیں سمجھتے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ یہود کی عام احسان فراموشی اور قلبی قساوت کا ذکر کرتے ہوئے درمیان میں ان مسلمانوں کو ایک خاص انداز سے خطاب فرمایا جنہوں نے یہود سے بوجہ ان کے اہل کتاب ہونے کے بہت سی توقعات قائم کر رکھی تھیں اور ان کو مسلمان بنانے کی سعی میں سر گرم تھے۔ اس خطاب سے مقصد یہ ہے کہ ان مسلمانوں کو سمجھایا جائے اور تسلی دی جائے کہ بھلا یہ لوگ کب ایمان قبول کرسکتے ہیں۔ ان کی حالت تو یہ ہے کہ یہ سمجھ بوجھ کر کلام الٰہی میں تحریف کرنے سے تو چوکتے نہیں اور تحریف سے مراد یہ ہے کہ یا تو الفاظ کو بدل دیتے ہیں یا تفسیر غلط کرتے ہیں یا دونوں قسم کی تحریف کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پھر ان کے نفاق کی حالت یہ ہے کہ جب تم سے ملتے ہیں تو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور خوشامد کے طور پر اپنی کتاب کی بعض باتیں بھی تم سے کہہ دیتے ہیں کہ تو ریت میں نبی آخر الزمان ﷺ کے متعلق یہ آیا ہے اور قرآن کے متعلق ہماری کتاب میں یہ لکھا ہے۔ لیکن جب یہ منافق اپنے دوسرے ہم مشربوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو وہ ان کو ڈانٹتے اور دھمکاتے ہیں کہ ہم نے جو باتیں مسلمانوں سے چھپا رکھی ہیں تم وہ سب ان سے خوشامد میں کہہ دیتے ہو اور اپنی کتاب کی باتیں اور پیشین گوئیوں کا ان سے ذکر کردیتے ہو۔ اب اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب قیامت میں پروردگار کے روبرو تمہارا اور ان کا جھگڑا ہوگا تو وہ خود تم کو تمہاری باتوں سے اور تمہاری ہی کتاب سے قائل کردیں گے اور تم کو کوئی جواب بن نہ پڑے گا۔ تم اتنی صاف بات بھی نہیں سمجھتے کہ اپنا بھید کسی دشمن سے نہیں کہنا چاہئے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ وہ جو ان میں منافق تھے خوشامد کے واسطے اپنی کتاب میں سے پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی باتیں مسلمانوں کے پاس بیان کرتے اور وہ جو مخالف تھے ان کو اس پر الزام دیتے کہ اپنے علم میں سے ان کے ہاتھ سند کیوں دیتے ہو۔ (موضح القرآن) بعض مفسرین نے اس جھگڑے اور غلبہ کا تعلق دنیا ہی میں مراد لیا ہے اور عند ربکم کے معنی تمہارے رب کے پاس سے نازل کردہ مضمون کئے ہیں ان کی تفسیر کا خلاصہ اس طرح ہے کہ تمہاری ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مسلمان تم کو مناظرے میں مغلوب کردیں گے اور تم کو یہ کہہ کر قائل کردیں گے کہ دیکھو یہ مضمون اللہ تعالیٰ کے پاس سے تمہاری کتاب میں آیا ہے اور خدا کا یہ نازل کردہ مضمون توریت میں موجود ہے۔ مسلمانوں کو تو خبر نہیں کہ ہماری کتاب میں کیا ہے۔ جب تم ہی ان کو بتادو گے تو وہ بحث مباحثہ میں اسی بات کو لے کر تم کو قائل کردیں گے۔ اس تقریر پر آیت کا تعلق اس دنیا کے مناظروں سے ہوگا۔ آخرت سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ آگے اس بات کا جواب ارشاد فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top