Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 46
الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۠   ۧ
الَّذِیْنَ : وہ جو يَظُنُّوْنَ : یقین رکھتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ مُلَاقُوْ : رو برو ہونے والے رَبِّهِمْ : اپنے رب کے وَاَنَّهُمْ : اور یہ کہ وہ اِلَيْهِ : اس کی طرف رَاجِعُوْنَ : لوٹنے والے
وہ ڈرنے والے وہ ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کو اپنے رب سے ملنا ہے اور یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ ان کو اس کی طرف واپس جانا ہے2
2۔ اور تم لوگ محنت برداشت کرنے اور نماز پڑھنے سے قوت حاصل کرو اور مدد لو ۔ اس میں شک نہیں کہ نماز شاق اور دشوار ضرور ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جن کے قلوب خشوع و خضوع کے خوگر ہیں اور یہ خاشعین وہ لوگ ہیں جو اس بات کو جانتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنیوالے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ ( تیسیر) پڑھا کرو، پہلی آیت میں پیغمبر (علیہ السلام) اور قرآن پر ایمان لانے کا حکم دیا تھا اور اس آیت میں اعمال کی پابندی کے لئے تاکید کی گئی تاکہ ایمان کامل ہوجائے اور یہ ظاہر ہے کہ اعتقاد اور اعمال کی جس قدر اصلاح ہوگی اسی قدر سیئات اور بد اعمالیوں سے نفرت بڑھے گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وارکعوا معر الراکعین کے معنی یہ ہوں کہ عاجزی اور انکساری کو خو اختیار کرو اور عاجزی کرنیوالوں کے ساتھ عاجزی اختیار کرو تاکہ اپنے کو بڑا سمجھنے کی بیماری کم ہو اور محمد ﷺ کی اتباع کی طرف رغبت ہو، واللہ علم آگے ان کی ایک مذموم حرکت پر ان کو تنبیہ فرماتے ہیں کیونکہ ان کا یہ بھی شیوہ تھا کہ اگر کوئی یہودیوں میں سے اسلام قبول کرلیتا تھا اور ان سے دریافت کرتا تھا کہ ہمارا یہ فعل کیسا ہے تو اس کی تحسین کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ پیغمبر واقعی وہی نبی آخر الزماں ہے جس کی تعریف توریت میں کی گئی اور اسی طرح اپنے احباب کی خاص مجالس میں بھی اس کا اظہار کرتے تھے اور جب کوئی بھی ان سے کہتا تھا کہ آئو پھر ہم تم سب اس نبی کی اطاعت قبول کرلیں اور اس پر ایمان لے آئیں تو یہ کم بخت خود تیار نہ ہوتے تھے اور دوسروں سے کہہ دیا کرتے تھے کہ تم چاہو تو مسلمان ہو جائو تم کو اختیار ہے ہم ایسا نہیں کرسکتے اس کو فرمایا کہ دوسروں کو تو بھلی بات کا حکم کرتے ہو اور خود اپنے کو فراموش کئے ہوئے ہو حالانکہ تم توریت پڑھتے ہو تو کیا تم کو یہ مسئلہ نہیں معلوم کہ تمہاری کتاب میں بےعمل واعظوں کی کیسی وعید آئی ہے اور یہ کتنا بڑا گناہ ہے کہ دوسروں کو تو نصیحت کرو اور خود عمل نہ کر اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی عام عادت خود توفسق و فجور کی ہو رشوت اور سود کھاتے ہوں جھوٹ بولتے ہوں لیکن جب ہیکل میں تقریر کرتے ہوں تو ان سب باتوں کو حرام کہتے ہوں اس پر تنبیہہ فرمائی ہو بہرحال آیت میں بےعمل عالموں کی مذمت ہے احادییث صحیحہ میں ایسے بےعمل لوگوں کی سخت مذمت اور وعید موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی بےعمل اور فاسق کسی کو نصیحت ہی نہ کرے اگر کوئی بھلی بات کسی کو معلوم ہو خواہ وہ خود بےعمل ہی کیوں نہ ہو مگر دوسرے کو بتاسکتا اور سمجھا سکتا ہے غرض ایک بےعمل عالم کو وعظ اور پند و نصیحت کا حق باقی رہتا ہے آگے کی آیت میں ان کے مرض کا علاج فرماتے ہیں کیونکہ اسلام قبول کرنے اور نبی کریم ﷺ کی اطاعت سے روکنے کے دو سبب تھے ایک حب جاہ اور ایک حب مال اور انہی دو بیماریوں سے ان میں حسد بھی پیدا ہوگیا تھا وہ کہتے تھے کہ اگر ہم مسلمان ہوگئے اور نبی آخر الزماں کے فرمانبردار ہوگئے تو ہمارے نذرانے اور رشوتیں سب بند ہوجائیں گی اور ہمیں مالی نقصان پہنچے گا۔ پھر اس وقت جو لوگ ہمارے مطیع اور فرمانبردار ہیں اور جن پر ہم حکمرانی کر رہے ہیں وہ بھی سب ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ اگر وہ سب مسلمان ہوگئے تب بھی ہم سے گئے اور اگر وہ یہودی رہے تب بھی وہ ہمارے نہ رہیں گے ان ہی دو بیماریوں کا آگے کی آیت میں علاج مذکور ہے۔ (تسہیل)
Top