Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 181
فَمَنْۢ بَدَّلَهٗ بَعْدَ مَا سَمِعَهٗ فَاِنَّمَاۤ اِثْمُهٗ عَلَى الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌؕ
فَمَنْ : پھر جو بَدَّلَهٗ : بدل دے اسے بَعْدَ : بعد مَا : جو سَمِعَهٗ : اس کو سنا فَاِنَّمَآ : تو صرف اِثْمُهٗ : اس کا گناہ عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ يُبَدِّلُوْنَهٗ : اسے بدلا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
پھر جو کوئی اس وصیت کو سننے کے بعد اسے تبدیل کریگا تو اس کا گناہ انہی لوگوں پر ہوگا جو اس کو تبدیل کریں گے بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے3
3 اور جن لوگوں نے اس وصیت کوسنا خواہ وہ وصی ہوں یا گواہ ہوں یا اور دوسرے لوگ ہوں پھر سننے کے بعد اس وصیت کے مضمون کو تبدیل کردیا اور اس تبدیل و تغیر کی وجہ سے موصی لہم میں سے جس کو نقصان پہنچے گا تو سوائے اس کے نہیں کہ اس نقصان اور حق تلفی کا گناہ ان ہی لوگوں پر ہوگا جو اس تبدیل و تغیر کے ذمہ دار ہوں گے مرنے والے پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ یقین جانو ! کہ اللہ تعالیٰ سب سنتا اور سب کو جانتا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ کسی مرنے والے کی وصیت کو سننے کے بعد اس میں کچھ کاٹ چھانٹ کرنا اور اس کے مضمون کو بدل دینا اور حاکم کے سامنے جھوٹا بیان دے کر غلط فیصلہ کرالینا اور جن کے لئے مرنے والے نے وصیت کی تھی ان میں سے کسی کو نقصان پہنچا دینا ان سب امور کا گناہ ان لوگوں پر ہوگا جو اس قسم کی حرکات کے مرتکب ہونگے مرنے والے سے مواخذہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ گواہی دینے والوں کی گواہی کو سنتا ہے اور فیصلہ کرنیوالوں کو بھی جانتا ہے کہ انہوں نے قصداً غلط فیصلہ کیا ہے یا شہادتوں کی بنا پر فیصلہ کرنے میں معذور ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی مردہ کہہ مرا تھا پر دینے والوں نے نہ دیا تو مردے پر گناہ نہیں وہی ہیں گناہ گار (موضح القرآن) اب آگے ایک اور شکل کو صاف فرماتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر مرنے والے ہی سے کوئی کوتاہی ہوگئی اور اس کے مرنے کے بعد موصی لہم میں جھگڑا ہوا اور کسی شخص نے فریقین کو رضا مند کرکے باہم فیصلہ کرا دیا اور وصیت میں کچھ ایسا رد و بدل کردیا جس سے فریقین مطمئن ہوگئے تو ایسے شخص پر کوئی گناہ نہیں گو ظاہر میں وصیت کا مضمون اس شکل میں بھی تبدیل ہوگیا لیکن تبدیلی قابل مواخذہ نہیں۔ ( تسہیل )
Top