Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 179
وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِي : میں الْقِصَاصِ : قصاص حَيٰوةٌ : زندگی يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
اور اے صاحبان عقل اس حکم قصاص میں تمہاری زندگی اور بقا ہے امید ہے کہ تم لوگ ناحق کی خونریزی سے پرہیز کرو گے1
1 اے ایمان والو ! ان مقتولین کے بارے میں جو عمدا، قتل کئے جائیں تو تم پر قصاص فرض کیا جاتا ہے آزاد آدمی قتل کیا جائے آزاد آدمی کے بدلے میں اور غلام قتل کیا جائے ۔ غلام کے بدلے میں اور عورت قتل کی جائے۔ عورض کے عو ض میں مگر ہاں جس قاتل کے لئے اس کے بھائی طالب قصاص کی جانب سے کچھ معاف کردیاجائے اور اولیائے مقتول میں سے کوئی شخص اپنا قصاص کا حق قاتل کو معاف کردے تو پھر فریقین کو اس بات کا خیال رکھناچاہئے کہ طالب دیت کو تو بھلائی اور معقول بات کی پیروی کرنا ہے اور قاتل کو خوش دلی اور خوبی کے ساتھ طالب دیت کو خوں بہا ادا کردینا اور پہونچا دینا ہے یہ حکم دیت و عفو تمہارے پروردگار کی جانب سے تخفیف و ترحم و مہربانی ہے پھر اس قانونی تخفیف کے بعد اگر کوئی شخص زیادتی اور تعدی کرے گا تو اسکو آخرت میں بڑا دردناک عذاب ہوگا اور اے صاحبان خرد و فہم اس قانون قصاص میں تمہاری زندگی اور تمہاری جانوں کا بچائو ہے ہم کو امید ہے کہ تم قانون کی خلاف ورزی اور ناحق خون ریزی سے پرہیز گرو گے۔ (تیسیر) قصاص کے معنی ہیں برابر اور مماثلت کے یعنی ایک انسان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو اس نے کیا ہے قتل کیا ہے تو قتل کیا جائے ہاتم کاٹا ہے تو ہاتھ کاٹاجائے کسی نے کسی کا پائوں کاٹا ہے تو پائوں کاٹا جائے وغیرہ وغیرہ۔ قتل جمع ہے قتیل بمعنی مقتول کی چونکہ یہاں قتل عمد کا قصاص بیان کیا گیا ہے اس لئے ہم نے تیسیر میں قتل عمد کی قید لگا دی ہے۔ قتل عمد اس کو کہتے ہیں جس میں قاتل قصداً کسی شخص کو کسی آہنی ہتھیار سے یا کسی ایسی چیز سے جس سے گوشت کٹ کر خون بہہ سکے قتل کردے اس آیت میں اس قسم کے قتل کا قصاص مذکور ہے رہا قتل خطا تو اس کا حکم پانچویں پارے میں انشاء اللہ تعالیٰ آجائے گا خواہ خطا کی یہ شکل ہو کہ کسی مسلمان کو کوئی کافر حربی سمجھ کر قتل کردیاجائے یا تیر کسی شکارپر چلایا اور وہ تیر کسی مسلمان کو لگ گیا اور وہ مرگیا یہ سب صورتیں وہیں ذکر کی جائیں گی۔ زمانہ جاہلیت میں قصاص کو ایک تماشا بنا رکھا تھا بڑے لوگوں پر قصا ص معاف تھا صرف تھوڑا سا روپیہ دے دلا کر مقتول کے وارثوں کو خاموش کردیا جاتا تھا ایک طرف تو یہ تھا کہ چھوٹے آدمیوں کی جان کی کوئی قیمت ہی نہ تھی دوسری طرف کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ مقتول کے وارث بجائے قاتل کے اسکے کسی عزیز کو قتل کر ڈالتے تھے اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ بجائے ایک شخص کے قاتل کے خاندان کے بہت سے آدمیوں کو قتل کرد یا جاتا تھا لیکن اسلام جو ایک منصفانہ شریعت لیکر آیا تھا اس نے ان تمام غلطیوں کی اصلاح کی جس میں دنیا مبتلا تھی اور قصاص کا مکمل قانون دنیا کے روبرو پیش کردیا چناچہ اس آیت کا نزول بھی ایسے موقعہ پر ہوا جبکہ دو قبیلوں میں باہمی نزاع تھا ایک قبیلے کے کئی خون دوسرے قبیلے کے ذمے چڑھ گئے تھے ۔ مقتولین کا قبیلہ قصاص کا طالب تھا قاتلوں کا قبیلہ چونکہ باعزت اور بڑے لوگوں کا قبیلہ تھا اس لئے وہ اپنی برتری کے باعث اس مساوات سے انکار کرتے تھے یا واقعہ اس طرح تھا کہ مقتولین کا قبیلہ بڑے لوگوں کا قبیلہ تھا وہ انتقام کے لئے یہ مطالبہ کرتا تھا کہ ہم اپنے غلام کے بدلے میں تمہارا آزاد آدمی قتل کریں گے اور لونڈی کے بدلے میں تمہاری آزاد عورت کو قتل کریں گے کیونکہ ہم قوت اور مال میں تم سے اونچے ہیں بہر حال ان لوگوں نے اپنا فیصلہ نبی کریم ﷺ کے روبرو پیش کیا اس پر یہ قانون قصاص نازل کیا گیا۔ اس مختصر تمہید کے بعد اس آیت کے متعلق چند باتیں سمجھ لینی چاہئیں۔ (1) اسلامی قانون میں کسی مقتول کے قصاص کا حق اس کے ورثاء کا حق تسلیم کیا گیا ہے حکومت کو نافذ کرنے کا حق ہے لیکن اگر ورثاء مقتول کو معاف کردیں تو حکومت کو خود بدلہ لینے کا حق نہیں ہے اور انصاف بھی یہی ہے کہ کسی شخص کے مرنے کا اثر جس جماعت اور جس سوسائٹی پر پڑتا ہے اسکو ہی یہ حق ہوناچاہئے کہ چاہے وہ انتقام لے یا معاف کردے یا خون بہا لے لے۔ ہاں حکومت وہاں خود مدعی ہوسکتی ہے جہاں مقتول کا کوئی وارث نہ ہو اور مقتول کی جانب سے کوئی مدعی نہ ہو موجودہ تہذیب میں یہ دستور نہیں ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ کافر حکومتوں کا قانون اسلامی قانون کے خلاف ہے کیونکہ مروجہ قانون میں سرکار خود مدعی ہوتی ہے۔ (2) جب قانون اسلامی میں قصاص اولیائے مقتول کا حق ہے تو وہ معاف بھی کرسکتے ہیں یا بجائے قصاص کے خون بہا لے سکتے ہیں جس طرح وہ فیصلہ کرلیں حکومت کو فریقین کا فیصلہ تسلیم کرنا ہوگا۔ (3) دیت یا خون بہا کی مقدار اسلام نے سو اونٹ یا ایک ہزار دینار یا دس ہزار درم مقرر کئے ہیں اور درم کی مقدار آج کل انگریزی سے تقریباً ساڑھے چار آنے ہوتی ہے۔ جب کبھی اونٹوں پر یا دینار درم پر فریقین کی صلح ہو تو شریعت نے جو مقدار مقرر کی ہے وہی لینی ہوگی اس سے زیادہ لینے کا حق نہ ہوگا ہاں کم ہوجائے تو مضائقہ نہیں۔ مثلاً مدعی پچاس اونٹوں پر صلح کرلے اور اگر صلح کسی اور سامان اور اشیاء پر ہوجائے تو پھر گنجائش ہے چاہے وہ مال جس پر صلح ہوئی ہو وہ ہزار دینار سے زائد کا ہو تب بھی لے لینا جائز ہوگا بلکہ صلح ہوجانے کے بعد اگر اولیائے مقتول چاہیں تو اس سامان کے بدلے میں نقد روپیہ لے لیں یہ بھی جائز ہے اور کسی سامان پر صلح ہوجانے کے بعد نقد روپے کی مقدار اگر شرعی مقررہ مقدار سے بڑھ جائے تب بھی لے لیناجائز ہے۔ مثلاً فریقین نے غلہ پر صلح کرلی ۔ صلح کے بعد یہ طے ہوا کہ بجائے غلہ کے اسکی قیمت دے دو اور وہ قیمت ہزار دینار یا دس ہزار درم سے زیادہ ہوئی تب بھی اس قیمت کا لیناجائز ہوگا۔ (4) خوں بہا قاتل کے مال میں سے لینا ہوگا اور کسی سے وصول نہیں کیا جائے گا اور وہ مال جو قاتل سے لیاجائے گا وہ مقتول کے وارثوں پر ورثہ کی طرح تقسیم کیا جائے گا اور ہر ایک کو حصہ رسدیدیاجائیگا۔ (5) مقتول کے ورثہ میں سے اگر ایک شخص بھی اپنے قصاص کا حق معاف کردے گا تو سب کے قصاص کا حق ساقط ہوجائیگا کیونکہ قتل کی تقسیم نہیں ہوسکتی البتہ دیت میں ان کا حق باقی رہے گا۔ مثلاً ایک مقتول کے چار لڑکے ہوں ایک اس میں سے قصاص کو معاف کردے تو باقی تین کا حق بھی ساقط ہوجائیگا اور وہ مجرم کے قتل کا مطالبہ نہیں کرسکیں گے ہاں خوں بہا میں ان کا حق باقی رہے گا اور وہ تینوں بیٹے اپنے حصے کا خوں بہا وصول کرلیں گے۔ (6) چونکہ قتل کے مقدمہ میں سب مسلمانوں پر ذمہ داری ہوتی ہے کوئی مدعی بنتا ہے کوئی گواہی دیتا ہے کوئی ملزم کو گرفتار کرکے پیش کرتا ہے کوئی حکم کی تنقید کرتا ہے کبھی قاتل خود پیش ہوکر اقرار کرلیتا ہے۔ لہٰذایا ایھا الذن امنوا میں خطاب بھی بنام ہے بعض لوگوں نے حکام کو مخاطب بنایا ہے بعض نے اولیائے مقتول کو اور بعض نے قاتل کے حمایتوں کو۔ اگرچہ سب احتمال صحیح ہیں لیکن عموم بہتر ہے یہ اس لئے کہ قانون کا فائدہ ہر مسلمان کو پہنچتا ہے۔ (7) اس آیت میں تو نہ حصر ہے کہ یوں کہاجائے بس قصاص یا تو آزاد آدمیوں کے درمیان جاری ہوگا یا دو غلاموں کے درمیان جاری ہوگا یا دو عورتوں کے درمیان جاری ہوگا اور ان صورتوں کے علاوہ اور کسی صورت میں قصاص نہیں ہوگا بلکہ آیت کا منشا صرف اس مساوات کا ظاہر کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان میں رکھی ہے اگر کوئی آزاد آدمی اپنے علاوہ کسی دوسرے کے غلام کو قتل کردے گا یا کوئی مرد کسی عورت کو قتل کردے گا یا کوئی عورت کسی مرد کو قتل کردے گی تب بھی قاتل پر قصاص جاری ہوگا اور کوئی بڑا کسی چھوٹے آدمی کو قتل کردے تو اس پر بھی قصاص جاری ہوگا یا اگر چند آدمی مل کر ایک مسلمان کو قتل کردیں تو ان سب پر قصاص جاری ہوگا۔ انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قصاص میں کوئی امتیاز نہ برتا جائے البتہ وہ صورتیں مستثنا ہوں گی جن کو شریعت نے خود مستثنا کردیا ہو۔ مثلاً باپ یا ماں اپنے بیٹے کو قتل کردے یا کوئی اپنی لونڈی اور غلام کو قتل کردے تو اس قسم کے قتل کا حکم علیحدہ ہے جو قانون کی کتابوں میں مفصل مذکور ہے بلکہ یہ آیت تو اپنے مفہوم میں اتنی وسیع ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کافر کو بھی قتل کردے گا تو اس مسلمان پر بھی قصاص جاری ہوگا اور احناف کا یہی مسلک ہے۔ جس طرح اس آیت میں بنی نوع انسان کی مساوات کا اعلان ہے اس سے یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ طریقہ قتل میں بھی مساوات برتی جائے اور جس طرح قاتل نے مقتول کو قتل کیا ہے بعینہ اسی طرح قاتل کو بھی قتل کیا جائے کیونکہ یہ صورت سب جگہ اختیار نہیں کی جاسکتی اس لئے اگر کیفیت قتل میں کوئی امکانی شکل سعادت کی حاصل ہوسکتی ہو تو امام کو اختیار ہے کہ وہ اولیائے مقتول کی دل جوئی کے لئے قاتل کو اسی طرح قتل کرائے جس طرح اس نے قتل کیا تھا۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی کو سزا دی تھی جس نے ایک لڑکی کا زیور اتارنے کی غرض سے اس کا سر پتھر سے کچل دیا تھا اور آپ نے بھی اس یہودی کا سر پتھر سے کچلوایا تھا لیکن کیفیت قتل میں چونکہ سب جگہ مساوات ناممکن ہے اس لئے قاتل کو تلوار سے قتل کردینا کافی ہے۔ اور یہی مذہب ہے امام احمد اور امام ابوحنیفہ کا اور حدیث میں بھی ہے لا فود الا بالسیف (7) اور یہ جو فرمایا کہ قاتل کو اس کے بھائی کی جانب سے کچھ معاف کردیا جائے۔ طالب قصاص یا فریق مقدمہ کو بھائی فرمایا یہ اس لئے تاکہ رحم اور مہربانی کا برتائو کیا جائے۔ نیز اس لئے کہ مسلمان کا قاتل اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا بلکہ دینی بھائی رہتا ہے ۔ شئی کا ترجمہ ہم نے کچھ کیا ہے اس لئے کہ ورثاء مقتول میں سے کوئی ایک وارث بھی ہو خواہ وہ چھٹے حصے کا وارث ہو یا آٹھویں حصہ کا وارث ہو اپناحق معاف کردے گا تو قاتل کو قتل نہیں کیا جائیگا۔ اب اس کے بعد وارث مقتول کو تو معقول اور بھلے طریق پر مال کا مطالبہ کرنا چاہئے یعنی سختی اور تنگی کا برتائو نہیں کرنا چاہئے اور قاتل کو خوش اسلوبی اور حسن سلوک کے ساتھ خون بہا ادا کردیناچاہئے خواہ مخواہ مقتول کے وارث کو ٹلانا اور پریشان نہیں کرنا چاہئے یہ قصاص کے قانون میں دیت اور عفو کی دفعہ بڑھانا تمہارے پروردگار کی جانب سے رحمت اور تمہارے لئے آسانی اور سزا میں تخفیف ہے۔ ورنہ قاتل کو صرف سزائے قتل ہی دی جایا کرتی۔ زیادتی کا مطلب یہ ہے کہ قاتل سے خوں بہا بھی وصول کرلیا اور پھر اسے قتل بھی کرڈالا معاف کرکے پھر قتل کی پیروی کرنے لگے یا کسی قتل کا جھوٹا دعویٰ کردے یا کسی غیر قاتل کو قتل کردے۔ غرض اعتدی ہر ایک صورت کو شامل ہے اور یہ جو فرمایا کہ قصاص میں تمہاری زندگی ہے یہ اس لئے کہ اس قانون کی وجہ سے لوگ قتل کا ارتکاب کرنے سے ڈریں گے نیز یہ کہ ایک قتل کی وجہ سے باقاعدہ قتال شروع ہوجاتا ہے اور ایک آدمی کے قتل کی وجہ سے بہت سے قتل ہوجاتے ہیں اور قانون قصاص نہ ہونے کی وجہ سے آپس میں تلخیاں اور بد مزگیاں بڑھ جاتی ہیں یہ سب باتیں اس قانون سے دور ہوجائیں گی اور تمہاری جانیں بچ جائیں گی۔ ہم نے اپنے ترجمہ اور تیسیر کی رعایت سے تفسیر کی ہے اور بہت سے احتمالات کو ترک کردیا ہے اور ائمہ مجتہدین کے اختلافات سے بھی بحث نہیں کی ہے کیونکہ ہماری تفسیر میں اس قدر گنجائش نہیں ہے ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) الدر پر فرماتے ہیں صاحب کے بدلے صاحب اور غلام کے بدلے غلام اسی طرح عورت یعنی ہر صاحب دوسرے صاحب کے برابر ہے۔ ہر غلام دوسرے غلام کے برابر ہے اشراف اور کم ذات کا فرق نہیں دولت مند اور فقیر کا فرق نہیں جیسے کفر میں معمول ہی ہو رہا تھا۔ فائدہ : جس کو معاف ہوا یعنی مقتول کے وارث اگر قصاص معاف کرکے مال پر راضی ہوں تو قاتل کو چاہئے کہ ان کو راضی کرے اور منت اٹھا کر خوں بہا پہنچادے۔ فائدہ : یہ آسانی ہو یعنی اگلی امت پر قصاص ہی مقرر تھا اس امت پر معاف کرنا اور مال پر صلح کرنی بھی ٹھہری۔ فائدہ : پھر بھی جو کوئی زیادتی کرے یعنی صلح کرکے مبلغ خوں بہا لے کر پھر مارنے کا قصد کرے۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) تتقون پر فرماتے ہیں یعنی حاکموں کو چاہئے کہ قصاص دلانے میں قصور نہ کریں تا آئندہ خون بند ہو۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے جو کچھ فرمایا ہے وہ تقریباً تسہیل میں آچکا ہے اس لئے اس پر کچھ مزید کہنے کی ضرورت نہیں قتل کا بیان قرآن میں کئی جگہ آئے گا مزید کچھ عرض کرنے کی ضررت ہوگی تو وہاں عرض کردیاجائے گا۔ بعض اپنے اکابر نےاتباع بالمعروف کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ مدعی کو طریقہ شرعی کی پیروی کرنی چاہئے اور کوئی ایسا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے جو غیر مشروع ہو مثلاً یوں کہہ دے کہ میں تو جب قصاص سے دست بردار ہوتا ہوں جب قاتل مجھے شراب پلائے یا اپنی لڑکی مجھے دے دے یا اور کسی غیر شرعی چیز کو معانی کی شرط ٹھہرائے بہر حال یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ( تسہیل )
Top