Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 176
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ نَزَّلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِی الْكِتٰبِ لَفِیْ شِقَاقٍۭ بَعِیْدٍ۠   ۧ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ نَزَّلَ : نازل کی الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اخْتَلَفُوْا : اختلاف کیا فِي : میں الْكِتٰبِ : کتاب لَفِيْ : میں شِقَاقٍ : ضد بَعِيْدٍ : دور
یہ عذاب مذکور اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب کو ٹھیک ٹھیک اتارا تھا اور جن لوگوں نے ایسی ٹھیک کتاب میں اختلاف ڈالا تو وہ یقینا ایک ایسی مخالفت میں پڑے ہیں جو طریقہ حق سے بہت دور ہے2
2 بلاشبہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کے احکام چھپاتے ہیں اور اس کتمان احکام کے معاوضہ میں لوگوں سے ثمن قلیل اور معمولی اجرت وصول کرتے ہیں تو ان لوگوں کی حالت سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ اپنے پیٹوں میں صرف آگ کے انگارے بھر رہے ہیں اور قیامت میں اللہ تعالیٰ ان سے نہ رخ دے کر بات کرے گا اور نہ ان کو گناہوں کی آلودگی سے پاک کرے گا اور ان کو درد ناک عذاب ہوگا۔ یہ احکام الٰہی میں خیانت کرنے والے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کو چھوڑ کر اس کی جگہ گمراہی اور مغفرت کو نظر انداز کرکے اس کی جگہ عذاب قبول کرلیا۔ تعجب ہے کہ ان لوگوں کو دوزخ کے عذاب کی کیسی برداشت ہے اور یہ آگ کی کیسے سہار کرنے والے ہیں ان کے لئے جس عذاب کا ذکر کیا گیا ہے اس عذا ب کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو کتاب کو صحیح مضامین و احکام کے ساتھ نازل کیا تھا اور جو لوگ ایسی ٹھیک اور صحیح نازل کی ہوئی کتاب میں اختلاف ڈالیں اور کج روی اختیار کریں تو یقینا وہ ایک ایسی ضد اور مخالفت میں مبتلا ہیں جو راہ حق سے بہت دور ہے۔ (تیسیر) کتاب سے مراد نوریت ہے اور اگر عام رکھاجائے تو ہر آسمانی کتاب مراد ہوگی یعنی جو لوگ آسمانی کتاب کے احکام کو دنیاوی نفع حاصل کرنی کی غرض سے چھپائیں۔ ان کی سزا یہ ہے ثمن قلیل کا استعمال مقابلہ کی وجہ سے کیا ہے ورنہ حقیقی خریدو فروخت نہیں ہے۔ دنیاوی فائدہ خواہ کتنا ہی زیادہ ہو وہ قلیل ہی ہے امر حق کو چھپا کر جو فائدہ حاصل کیا جائے اس کی ظاہری صورت کچھ بھی ہو لیکن اس کا کھانا ایسا ہے جیسے کوئی آگ سے پیٹ بھرے۔ حرام کے ذریعہ سے جو چیز حاصل کی جائے اس کا نتیجہ چونکہ عذاب کی شکل میں ظاہر ہوگا اس لئے وہ حرام کا مال آگ کے انگارے ہیں۔ قیامت میں اللہ تعالیٰ کے کلام نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مہربانی اور تلطف کے ساتھ کلام نہیں کرے گا اور نہ انکے گناہ معاف فرما کر ان کو گناہوں کی نجاست سے پاک کرے گا ہدایت و گمراہی اور عذاب و مغفرت میں چونکہ حقیقی بیع و شرا اور لین دین نہیں ہے اس لئے ہم نے ترجمہ میں اس کا لحاظ رکھا ہے کیونکہ مطلب یہ ہے کہ ہدایت قبول کرنی کی استعداد کو برباد کردیا اور گمراہی کی استعداد کو بڑھایا یہ تو دنیا میں کیا اور آخرت میں مغفرت سے محروم رہے اور مغفرت کی بجائے عذاب پلے بندھا اور یہ جانتے ہوئے کہ ہماری اس گمراہی کی جزا دوزخ کی آگ ہوگی پھر گمراہی پر اصرار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دوزخ کی آگ پر بڑے ہی صابر ہیں اسکو تعجب کے الفاظ سے ادا فرمایا کہ ان کی ہمت دیکھو اور دوزخ کی آگ برداشت کرنے کو دیکھو کہ کیسے اس پر آمادہ ہیں اور آگ کی سہار پر کیسے جری ہیں اور یہ واقعہ ہے کہ جو لوگ ایسی کتاب میں جو حق ہو اور منزل من اللہ ہو اس کے احکام کو بدلیں یا چھپائیں تو وہ سخت ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں۔ شقاق کو ہم پہلے پارے میں بتا چکے ہیں کہ یہ شق سے مشتق ہے جس کے معنی پہلو کے ہیں چونکہ مخالف پہلو پھر کے بیٹھتا ہے اس لئے اب اس کے معنی ضد اور خلاف وغیرہ سے کئے جاتے ہیں اس آیت میں شقاق کے ساتھ بعید کی قید بھی لگائی تاکہ معلوم ہو کہ ان کی ضد اور ان کا شقاق راہ حق سے بہت دور ہے اور اسی وجہ سے یہ دین حق کے قریب نہیں آسکتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہود نے اپنی کتاب میں سے پیغمبر آخر الزماں کی صفت چھپا ڈالی اور بہت آیتوں کے معنی بدل ڈالے غرض دنیا کے واسطے۔ (موضح القرآن) اب تک جو کچھ ذکر ہوا اس کا تعلق بڑی حد تک منکرین حق کے اعتراضات اور ان کے جوابات کے ساتھ تھا اور اسی سلسلے میں توحید و رسالت کا اثبات اور قرآن کریم کی حقانیت اور دین حق کے منکرین کا انجام وغیرہ مذکور تھا۔ درمیان میں قبلہ کی بحث آگئی اب آگے یہود کے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے نیک اعمال کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور جس طرح اب تک روئے سخن منکروں کی جانب تھا اور کہیں کہیں مسلمانوں سے خطاب ہوجاتا تھا اسی طرح اب آخر سورت تک روئے سخن مسلمانوں کے ساتھ ہے اور درمیان میں کہیں کہیں کافروں کا ذکر بھی آجائیگا اور چونکہ بر یعنی بھلائی اور نیکی کی تفصیل میں جملہ اعتقادات اور معاملات کو دخل ہے خواہ وہ دینوی معاملات ہوں یا دینی اس لئے ان سب کا ذکر ہے مثلاً اعتقادات میں اللہ پر ایمان لانا اور قیامت پر ایمان رکھنا اور فرشتوں پر ایمان لانا وغیرہ اور احکام و معاملات میں ایفائے عہد نکاح، جہاد، قصاص، وصیت، صیام، حج، انفاق فی سبیل اللہ، حیض، ایلائ، طلاق، رضاعت، عدت، مہر، بیع وشرائ، سود کا لین دین، قرض اور رہن اور شہادت اور دستاویز کی کتابت وغیرہ یہ سب چیزیں بر میں داخل ہیں تو گویا باقی سور ت میں لفظ بر کی تشریح و تفصیل کا بیان ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت بخشش اور نصرت اور کفار کے مقابلے میں فتح کی دعا پر سورت کو ختم کیا گیا ہے ، یہود جب اپنے متعلق عذاب کا ذکر سنتے تو کہتے ہم جہنم میں کس طرح جاسکتے ہیں ہم میں تو بہت سی باتیں مغفرت کی موجود ہیں اور سب سے بڑی نیکی تو ہم میں یہی ہے کہ جس قبلہ کی طرف ہم کو منہ کرنے کا حکم ہوا ہے اسی طرف منہ کرکے اپنی عبادت کرتے ہیں یہ بھلائی کیا کم ہے یہی ہماری مغفرت اور بخشش کیلئے کافی ہے اس کا جواب فرمایا اور جواب کے ساتھ لفظ بر کی تفصیل شروع کدی اور چونکہ اعمال کو بجا لانے اور نیک باتوں پر عمل کرنے اور احکام شریعت کی تعمیل کرنے کے صرف مسلمان ہی اہل ہیں اس لئے ان کی ہی جانب روئے سخن ہے اور یہ کہ ضمنات کہیں کہیں منکرین حق کا ذکر بھی آگیا ہے۔ (تسہیل)
Top