Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 168
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے النَّاسُ : لوگ كُلُوْا : تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : اور پاک وَّلَا : اور نہ تَتَّبِعُوْا : پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اے لوگوں زمین کی چیزوں میں سے جو حلال و پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھائو اور شیطان کے قدم بقدم نہ چلو بلا شبہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے1
1 اے لوگو ! زمین میں جو چیزیں موجود ہیں ان میں سے وہ چیزیں جو شرعاً حلال و پاکیزہ ہوں ان کو تم کھائو اور دیکھو شیطان کی پیروی نہ کرو اور اس کے قدم بقدم نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اشیاء خوردنی تمہارے لئے زمین میں پیدا کی ہیں ان میں سے جو شریعت نے حلال و پاکیزہ فرمائی ہیں ان کو حسب ضرورت کھانے اور استعمال کرنے کی اجازت ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ حلال چیزوں کو حرام کرکے بیٹھ جائو اور ان کا کھانا ترک دو جیسا کہ بعض یہود اب تک اپنی منسوخ شریعت کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھ رہے ہیں یا بعض عرب کے قبائل بعض جانوروں کو بتوں کیلئے خاص کرلیتے تھے اور ان کی سواری اور ان کے گوشت کو حرام سمجھتے تھے یا جیسے مشرکین ہند گائے کو قابل تعظیم سمجھ کر اسکا گوشت نہیں کھاتے یا بعضے جاہل اپنی یا اپنے عزیزوں کی بیماری کی وجہ سے اپنے پر بعض ماکولات اور مشروبات کو حرام کرلیتے ہیں یا جیسے بعض لوگ غصہ میں کسی چیز کے کھانے پر قسم کھالیتے ہیں اور اس چیز کو اپنے اوپر حرام کرلیتے ہیں یا جیسے بعض جاہل صوفی ٹھنڈا پانی یا لذیذ کھانوں کو اپنے اوپر حرام کرلیتے ہیں اور اسکی اعلیٰ درجہ کی ریاقت و عبادت سمجھتے ہیں تحریم کے یہ سب طریقے حرام ہیں جو چیزیں شریعت محمدیہ نے حلال کی ہیں ان کو حرام کرنیکا حق کسی کو نہیں ہے۔ حلال کے ساتھ طیب کی قید بھی لگائی۔ بعض حضرات نے طیب سے خوش ذائقہ اور لذیذ اشیاء مراد لی ہیں یعنی جو چیز شرعاً حلال ہو اور مرغوب طبع اور لذیر بھی ہو اگر طیب کے یہ معنی کئے جائیں تو دائوں کو مستثنیٰ کرنا ہوگا کیونکہ دوا کا استعمال جائز ہے اور بسا اوقات دوا مرغوب طبع اور لذیذ نہیں ہوتی۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ چیز چلال و طیب نہ ہو تو فی حد ذاتہ حرام ہو جیسے شراب، خون، مردار وغیرہ اور نہ کسی عارض کیوجہ سے اس میں حرمت آتی ہو جیسے رشوت، غصب، سود، اسیاء مسروقہ وغیرہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے بارگارہِ رسالت میں ایک دفعہ درخواست کی تھی یا رسول اللہ ؐ میرے لئے دعا کر دیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مستجاب الدعوات کردے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے سعد میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بعض دفعہ انسان حرام کا ایک لقمہ کھا لیتا ہے اور اس کی دعا اس حرام کے لقمہ کی وجہ سے چالیس دن تک قبول نہیں ہوتی جس شخص کا گوشت اور رشوت سود کے مال سے بڑھے گا اس کے لئے دوزخ کی آگ ہی سزا وار ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جس طرح بتوں کی عظمت اور ان کے احترام کی وجہ سے کسی جانور یا کسی کھیت کو یا کسی جانور کے دودھ کو یا کسی مادہ کے اس بچہ کو جو پیٹ میں ہو حرام سمجھنا ایک شیطانی اور مشرکانہ فعل ہے۔ اسی طرح کسی سانڈ کو یا بکرے اور مرغ کو تقرب کی نیت سے غیر اللہ کے نام پر نامزد کرنا بھی ایک حرام فعل ہے اور یہ بھی حلال کو حرام کرنی کی ایک صورت ہے جسکی تفصیل انشاء اللہ چند آیتوں کے بعد آجائیگی مطلب یہ ہے کہ خواہ کوئی ایسا فعال کیا جائے جس سے حلال جانور حرام ہوجائے اور اس میں حرمت آجائے یا غیر اللہ کی تعظیم اور تقرب کی نیت سے کسی حلال کو اپنے اوپر حرام کرلو یہ دونوں صورتیں غیر شرعی اور خطوات شیطان سے ہیں۔ غرض جو ماکولات و مشروبات حق تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کی ہیں ان کو کھائو پیو، بشرطیکہ ان میں کوئی شرعی ممانعت نہ ہو خطوۃ یا خطوۃ اس فاصلہ کو کہتے ہیں جو چلنے والے کے دونوں قدم کے درمیان ہوتا ہے یعنی ایک قدم اٹھا کر دوسرا قدم رکنے کے مابین کا فاصلہ لیکن چونکہ اب یہ پیروی کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس لئے ہم نے تیسیر میں دونوں کا لحاظ رکھا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ عرب کے لوگوں نے دین ابراہیم (علیہ السلام) کو کئی طرح بگاڑا تھا اول سوائے خدا کے اوروں کو پوجنے لگے اور ان کی نیاز جانور ذبح کرنے لگے کہ وہ مردار ہوتا ہے اور کفر ہے اور مواشی میں سے کئی چیزیں حرام ٹھہریں سورة مائدہ اور انعام میں جن کا بیان ہے اور گوشت خوک حلال سمجھا ان باتوں پر اللہ تعالیٰ ان کو الزام دیتا ہے۔ (موضح القرآن) اب آگے شیطان کا طریقہ کار کا ذکر ہے کہ وہ کیسی بری باتوں پر انسان کو ابھارتا اور آمادہ کرتا ہے۔ (تسہیل)
Top