Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 162
خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ۚ لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ
خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں لَا يُخَفَّفُ : نہ ہلکا ہوگا عَنْهُمُ : ان سے الْعَذَابُ : عذاب وَلَا : اور نہ ھُمْ : انہیں يُنْظَرُوْنَ : مہلت دی جائے گی
یہ لوگ اس لعنت میں ہمیشہ رہیں گے ان پر سے نہ تو کسی وقت عذاب ہلکا کیا جائیگا اور نہ ان کو مہلت ہی دیجائے گی1
1 یقیناً جو لوگ ان مضامین اور احکام کو چھپاتے ہیں جن کو ہم نے نازل فرمایا ہے اور وہ احکام صاف و واضح ہیں اور وہ مضامین و احکام صحیح راستہ دکھانے والے ہیں اور یہ لوگ ان مضامین کا اخفا بھی اس کے بعد کرتے ہیں جبکہ ہم عام لوگوں کیلئے ان کو خوب کھول کر کتب سماویہ میں بیان کرچکے ہیں۔ اس صراحت و وضاحت کے باوجود جو بدبخت ان مضامین و احکام کو چھپاتے ہیں تو ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ بھی لعنت فرماتا ہے اور لعنت کرنیوالے بھی ایسوں پر لعنت بھیجتے ہیں مگر ہاں وہ حضرات اس لعنت سے مستثنیٰ ہوتے ہیں جو اس قسم کے جرم سے رجوع کرلیں اور تائب ہوجائیں اور اپنے اس فعل کی تلافی کردیں اور حق بات کو ظاہر کردیں تو میں ایسے لوگوں پر رحمت کے ساتھ توجہ فرماتا ہوں اور ان کی توبہ قبول کرلیتا ہوں اور میں تو بہت توبہ قبول کرنیوالا اور بڑی مہربانی قبول کرنیوالا ہوں۔ البتہ جو لوگ اپنی کافرانہ روش پر قائم رہیں اور کفر ہی کی حالت میں مر بھی جائیں تو ایسے بدبختوں پر خدا کی لعنت اور مزید براں فرشتوں کی اور انسانوں کی بھی سب کی لعنت اس طور پر پڑتی رہے گی کہ وہ اس لعنت میں ہمیشہ گرفتار رہیں گے ایسے لوگوں پر سے نہ تو کسی وقت عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو کوئی مہلت دی جائے گی۔ (تیسیر) بظاہر آیت کا تعلق اہل کتاب اور ان کے ان علماء سے ہے جو نبی ﷺ آخر الزماں کی نبوت ؐاور آپکی نسبت ان صاف اور واضح پیشن گوئیوں کا اخفا کرتے تھے جو توریت و انجیل اور دوسرے صحیفوں میں مذکور تھیں۔ جیسا کہ ہم نے ربط کی تقریر میں عرض کیا ہے اگرچہ آیت عام ہے اور اس میں ہر کام تم حق کو داخل کیا جاسکتا ہے خواہ وہ امت محمدیہ کا کوئی شخص ہو یا امم سابقہ کا کوئی عالم ہو۔ ہم نے ما سے مراد مضامین اور احکام لئے ہیں تاکہ کتاب کی ہر ایک بات شامل ہوجائے کوئی کا تم حق یہ کہہ سکتا تھا کہ میں ان احکام کو بیان تو کردوں مگر وہ مغلق بہت ہیں اور بہت پیچیدہ اور الجھے ہوئے ہیں اس لئے میں ان کو بیان نہیں کرتا اور چھپاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے یہ فرما کر دروازہ بند کردیا کہ اول تو وہ مضامین میرے نازل کردہ ہیں پھر خود نہایت صاف اور واضح ہیں پھر ان کا ایک ایک لفظ ہدایت سے لبریز ہے اور میں نے ان کو خوب کھول کر اور واضح طور پر بیان کیا ہے۔ ایسے مضامین کو چھپانا تو محض خیانت اور بددیانتی سے ہوسکتا ہے ورنہ ان کے چھپانے اور اخفا کرنی کی کوئی وجہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیتا ہے اور اپنی بارگاہ سے دفع کردیتا ہے یعنی بھلے کاموں کی توفیق سلب کرلیتا ہے لاعنون سے مراد فرشتے اور مسلمان ہیں خواہ وہ جنات میں سے ہوں یا انسانوں میں سے ہوں۔ بعض نے کہا کہ جن و انس کے علاوہ دوسری مخلوق مراد ہے خواہ وہ چوپائے ہوں یا حشرات الارض ہوں یا پرندے ہوں چونکہ ملعون انسان کی نحوست کا تمام عالم کی اشیاء پر اثر پڑتا ہے اس لئے سب ہی ایسے انسانپر لعنت کرتے ہیں جو حق بات کو چھپا کر خدا تعالیٰ کے دین کو نقصان پہونچائے۔ بالخصوص وہ بلاعنہ جو نبی کریم ﷺ کی نبوت کے مضامین و احکام کو چھپائیں اور رحمۃ للعالمین کی خوبیوں کی کتمان کرکے لوگوں کو آپ پر ایمان لانے سے روکیں۔ خدا کی مخلوق کے لعنت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ملعون کے حق میں بددعا کرتے ہیں۔ حضرت مجاہد کا قول ہے جب بارش نہیں ہوتی اور قحط پڑتا ہے تو ہر جان دار حتیٰ کہ چوپائے اور بچھو اور موذی کیڑے بھی فساق و فجار کے حق میں بد دعا کرتے ہیں کہ خدا ان پر لعنت کرے ان کے گناہوں کیوجہ سے ہم کو بھی قحط میں مبتلا ہونا پڑا توبہ کا مطلب ہم بیان کرچکے ہیں بندے کی توبہ یہ کہ ندامت اور پشیمانی کے ساتھ خدا کیفرف رجوع کرے اور خدا تعالیٰ کی توبہ یہ کہ رحمت کے ساتھ بندے کی جانب توجہ فرمائے اور چونکہ خالی توبہ کا فی نہ تھی اس لئے اصلحوا کا لفظ بڑھایا کہ تلافی بھی کرے اور اس نقصان کا تدارک بھی کرے جو اس کی شرارت اور کتمان حق سے بنی نوع انسان کو پہنچا ہے اور جو امر حق اس نے چھپایا تھا اس کو ظاہر کردے اور لوگوں کو بتادے چونکہ یہاں اہل کتاب کا ذکر ہے اس لئے مطلب یہ ہوگا کہ توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں اور جن لوگوں کو کتمان حق کرکے گمراہ کیا تھا ان کے سامنے اس حق کا اظہار کریں اور اگر ایسا نہ کریں گے اور اپنے کفر پر قائم رہیں گے اور کتمان حق کا ارتکاب کرکے خود بھی توبہ اور ایمان سے محروم رہیں گے اور دوسروں کو بھی نبی آخر الزماں کی رسالت پر ایمان لانے سے روکیں گے اور اسی حالت پر ان کو موت بھی آجائے یعنی مرتے دم تک کفر ہی پر قائم رہیں گے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ خدا کی لعنت اور فرشتوں کی اور انسانوں کی سب کی لعنت میں مبتلا رہیں گے اور جو خدا کی رحمت سے دور کردیاجائے اور مخلوق کی بد دعائیں اس پر پڑتی ہوں تو اس کا جہنم کے عذاب میں جانا یقینی ہے اس عذاب کی حالت یہ ہے کہ کسی وقت بھی ان پر سے ہلکا نہ ہوگا بلکہ بڑھتا ہی جائے گا اور مہلت بھی نہ ہوگی کہ واپس چلے جائیں یا تھوڑی دیر کیلئے رخصت مل جائے اور کچھ آرام کرلیں یا یہ مطلب ہے کہ جہنم میں داخل ہونے سے پیشتر ان کو کچھ مہلت مل جائے کہ وہ کوئی معذرت کرسکیں یا کوئی عذر پیش کرسکیں اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھاجائے گا یعنی خدا کی نظر رحمت سے بالکل محروم رہیں گے (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب (رح) لاعنون پر لکھتے ہیں یہ ان کے حق میں ہے جن کو علم خدا کا پہنچا اور غرض دنیا کے واسطے چھپا رکھا۔ (موضح القرآن) ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ رسالت اور قیامت اور مرنے کے بعد جی اٹھنا اور قرآن کی صداقت اور توحید الٰہی یہ وہ اہم مسائل ہیں کہ قرآن کریم نے ان کو بار بار مختلف عنوانات اور مختلف دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے کوئی سورت قرآن کریم کی ایسی نہیں ملے گی جس میں ان مسائل پر روشنی نہ ڈالی گئی ہو۔ چنانچہ یہاں بھی کتمان حق کی بحث میں نبی کریم ﷺ کی رسالت کا ثابت کرنا اصل مقصد تھا۔ اب اسکی مناسبت سے آگے توحید کا ذکر ہے پہلے دعویٰ ہے پھر اس کے دلائل ہیں پھر مشرکوں پر اعتراض ہے پھر قیامت میں ان کے سرداروں اور حمایتیوں کی بےبسی اور اظہار بیزاری ہے۔ (تسیہیل)
Top