Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 156
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ
الَّذِيْنَ : وہ جو اِذَآ : جب اَصَابَتْهُمْ : پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالُوْٓا : وہ کہیں اِنَّا لِلّٰهِ : ہم اللہ کے لیے وَاِنَّآ : اور ہم اِلَيْهِ : اس کی طرف رٰجِعُوْنَ : لوٹنے والے
کہ جب ان پر کسی قسم کی کوئی مصیبت بھی آتی ہے تو وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے ملک ہیں اور ہم سب اسی کی طرف واپس جانیوالے ہیں3
3 اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کردئیے جائیں ان کے متعلق یوں نہ کہو کہ وہ مردے ہیں اور وہ مرچکے ہیں بلکہ وہ تو زندہ ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ تم ان کی حیات کا ادراک نہیں کرسکتے اور یاد رکھو ہم تم کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا کریں گے اور قدرے خوف اور کسی قدر فقرو فاقہ سے اور تھوڑے سے مالی و جانی نقصان اور پھلوں کی کمی سے تمہارا امتحان لیں گے اور اے پیغمبر آپ ایسے صبر کرنیوالوں کو بشارت دیدیجئے جن کی حالت یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت بھی پہنچتی ہے تو وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہے اور ہم سب کی بازگشت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے اور ہم سب اسی کی طرف واپس ہونے والے ہیں۔ (تیسیر) اللہ کی راہ کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے واسطے اور اعلاء کلمۃ اللہ کی غرض سے جنگ کرتے ہیں اور اس میں مارے جاتے ہیں اور اگرچہ اصولاً ان کے لئے یہ کہنا جائز ہے کہ فلاں شخص مرگیا فلاں صاحب کا انتقال ہوگیا یا وہ شہید ہوگیا لیکن شہید فی سبیل اللہ کو چونکہ عالم برزخ کی زندگی میں ایک خاص فضیلت اور خصوصیت حاصل ہے اس لئے اس کو عام مردوں کی طرح سمجھنے اور دوسرے مردوں پر قیاس کرنے سے روکا گیا ہے اور اس امر کی ممانعت کی گئی ہے کہ ان کو عام مردوں میں شمار نہ کرو۔ اگرچہ عالم برزخ میں ہر شخص کو ایک قسم کی زندگی عطا ہوتی ہے جس میں ابتدائی پوچھ گچھ کے علاوہ اس کے عذاب وثواب کا ٹھکانہ اس کو دکھایاجاتا ہے اور اس کو جزاو سزا کا ادراک ہوتا ہے لیکن شہید فی سبیل اللہ کی حیات عام مردوں سے قوی ہوتی ہے جس کا اثر اس کے جسم کو بھی پہنچتا ہے اور اس کا جسم زمین کی خورد وبرد سے محفوظ رہتا ہے اگرچہ یہ بات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی خصوصیات میں سے ہے لیکن شہید کو بھی یہ مرتبہ عطا کیا ہے اور وہ جس طرح دفن کیا جاتا ہے اسی طرح قیامت میں اٹھایاجائے گا بلکہ اس کے جسم سے تازہ خون بہتا ہوگا۔ یہ بات تو ہر شخص سمجھتا ہے کہ موتکاتعلق جس سے ہے روح تو ہر مرنے والے کی اپنی حالت پر رہتی ہے اور اس میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا البتہ اس جسم سے جسکے ساتھ وہ وابستہ تھی اس کا تعلق ختم ہوجاتا ہے اور روح جو ترقی جسم کے ساتھ کر رہی تھی وہ ترقی اس کی ختم ہوجاتی ہے اور اسی طرح و ہ دنیوی نعمتیں جو کھانے اور پینے سے حاصل تھیں وہ بھی ختم ہوجاتی ہیں۔ گویا روح کا جسم سے علیحدہ ہونا دو باتوں کو صاف نمایاں کردیتا ہے ایک عملی ترقی اور دوسری دنیوی زندگی کے مادی فوائد یہی وجہ ہے کہ مرنے کے بعد مرنے والے کا مال تقسیم کرلیا جاتا ہے اور اسکی بیوہ سے نکاح کیا جاسکتا ہینہ اب کوئی ترقی کرسکتا ہے اور نہ اپنے مال سے کوئی فائدہ حاصل کرسکتا ہے انہی دو اعتبار سے شہداء کی زندگی عام مسلمانوں سے مختلف ہے۔ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں ہر ابن آدم کا عمل جب ابن آدم مرجاتا ہے تو ختم ہوجاتا ہے لیکن مجاہد فی سبیل اللہ کا عمل ختم نہیں ہوتا فانہ ینی لہ عملہ الی یوم القیمۃ اس کا عمل قیامت تک اس کے لئے بڑھتا رہتا ہے۔ دوسری بات کھانا پینا اور مختلف نعمتوں سے بہرہ مند ہونا تو اس کی بھی احادیث صحیحہ میں تصریح موجود ہے کہ شہداء کی ارواح سبز یا سفید پرندوں کے حواصل میں داخل کردی جاتی ہیں وہ پرندے جنت میں جہاں چاہیں کھاتے پھرتے رہیں اور شام کو عرش الٰہی کی قندیلوں میں بسیرا کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی یرزقون فرحین فرمایا ہے۔ بہر حال لذات اور اعمال دونوں کے اعتبار سے ان کو زندگی کے فوائد حاصل ہیں ان کے جسم پر دنیا کی زمین تصرف نہیں کرسکتی باقی کسی اور وجہ سے ان کی لاش برباد کردی جائے تو اس کا امکان ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عرصہ دراز تک محفوظ رہتی ہے۔ اسی طرح سبز پرندوں کی کیفیت اور کھانے پینے کی کیفیت بھی نہیں سمجھائی جاسکتی۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ عالم برزخ میں ا ن سے ایک امتیازی سلوک برتا جاتا ہے خواہ اس کی کیفیت کچھ ہو اور اس کو خواہ کسی الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہو۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ کی ارواح مقدسہ پر جو اثرات حیات مرتب ہوتے ہیں وہ شہدا سے بہت قوی اور اعلیٰ ہوتے ہیں حتیٰ کہ ان کی ازواج مطہرات سے کوئی شخص نکاح بھی نہیں کرسکتا اور نہ ان کا کوئی ترکہ تقسیم ہوسکتا ہے عدم شعور کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری سمجھ سے ان کی زندگی بالاتر ہے اور یہ واقعہ بھی ہے کہ دوسرے عالم کی صحیح کیفیات کو بجز نفوس قدسیہ اور ارواح طیبہ کے کون سمجھ سکتا ہے ۔ نقصانات میں آزمائش کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ بات ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ آزمائش و امتحان خیر اور شردونوں طریقوں پر ہوتا ہے جہاد کے موقعہ پر تو یہ نقصانات عام طورپر پیش آتے ہیں اور دشمنوں کے ہجوم کیوقت ان امور کا پیش آنا ظاہری ہے اور جہاد کے علاوہ بھی اس قسم کے حادثات سے ایک انسان دوچار ہوتا ہی رہتا ہے دشمن کے حملہ کا خوف، فقروفاقہ، لڑائی کے وقت سامان خوراک کی کمی، جانوں اور مالوں کا خرچ، زراعت کی تباہی وغیرہ یہ ایسی باتیں ہیں جو بالعموم اور جہاد کے موقعہ پر بالخصوص پیش آتی رہتی ہیں اس قسم کے مصائب پر صبر کرنے والوں کو بڑی بشارتیں ہیں امتحان کا مطلب یہاں بھی وہی ہے جو اوپر عرض کیا تھا دوسروں پر ظاہر کرنے کی غرض سے یا خود مبتلا پر ظاہر کرنے کی غرض سے اس قسم کے امتحانات ہوتے رہتے ہیں اور جس کسی کا مرتبہ زیادہ ہوتا ہے وہ اس قسم کے امتحانات میں زیادہ مبتلا ہوتا ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت حق جل مجدہ جس بندے کو پسند فرماتے ہیں اور دوست رکھتے ہیں اس کی طرف بلائیں اس سرعت کے ساتھ آتی ہیں جس طرح نشیب میں پانی دوڑتا ہے۔ نبی کریم ﷺ معمولی سی معمولی تکلیف کے موقعہ پر بھی انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا کرتے تھے ایک دفعہ ہوا سے چراغ بجھ گیا تو آپ نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ بھی کوئی مصیبت ہے فرمایا عائشہ ہر وہ چیز جس سے دل کو پریشانی اور جی کو قلق ہو اس پرانا للہ پڑھنا چاہئے۔ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں جو بندہ مصیبت کے وقت بجائے گھبرانے اور چلانے اور رونے کے اس کو پڑہتا ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اس کو اس سے نقصان کا نعم البدل عطا فرماتا ہے اور آخرت کے لئے اس کا اجر وثواب جمع کرلیتا ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) سے منقول ہے کہ اس آیت میں خوف سے مراد اللہ تعالیٰ کا خوف ہے اور جوع سے مراد رمضان شریف کے روزے ہیں اور نقص من الاموال سے مراد زکوۃ ہے اور انفس سے مراد امراض اور بیماری ہیں اور نقص ثمرات سے مراد اولاد کی موت ہے کیونکہ اولاد انسان کے قلب کا پھل ہے۔ ترمذی نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ جب کسی بندے کا لڑکا مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے تم نے میرے بندے کے لڑکے کو قبض کرلیا۔ وہ عرض کرتے ہیں ہاں ہم نے اس کی جان قبض کرلی ؟ ارشاد ہوتا ہے تم نے میرے بندے کے قلب کا پھل توڑ لیا۔ و ہ عرض کرتے ہیں الٰہی ایسا ہی ہوا۔ ارشاد ہوتا ہے پھر میرے بندے نے کیا کہا، فرشتے عرض کرتے ہیں اس نے آپ کی حمد بیان کی اور انا للہ وانا الیہ راجعون کہا ارشاد ہوتا ہے اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنادو اور اس گھر کا نام بیت الحمد رکھو اب آگے اس بشارت کا ذکر فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top