Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 12
اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰكِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ
اَلَا : سن رکھو إِنَّهُمْ : بیشک وہ هُمُ الْمُفْسِدُونَ : وہی فساد کرنے والے وَلَٰكِنْ : اور لیکن لَا يَشْعُرُونَ : نہیں سمجھتے
یادرکھو ! وہی لوگ ہیں فساد کرنے والے لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے5
5۔ اور جب ان منافقین سے یہ کہا جائے کہ تم ملک میں فساد برپا نہ کرو تو یہ لوگ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنیوالے ہیں ۔ آگاہ رہو یہی لوگ فساد کرنیوالے ہیں مگر ان کو اپنے مفسد ہونے کا شعور نہیں ۔ ( تیسیر) فساد اور اصلاح یہ دو لفظ قرآن میں ہیں عام طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ اگرچہ فساد کے اصل معنی تو حد اعتدال سے نکل جانے کے ہیں اور اصلاح اس کا مقابلہ ہے یعنی حد اعتدال کی پابندی کرنے کا نام اصلاح ہے مگر عام طور پر اس کے معنی ہر قسم کی شرارت اور ہر قسم کی درستی اور اصلاح کئے جاتے ہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے فساد کا ترجمہ بگڑا اور اصلاح کا ترجمہ سنوار کیا ہے چونکہ آج کل یہ دونوں لفظ اردو میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں ، اس لئے ہم نے ان کا کوئی خاص ترجمہ نہیں کیا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب ان کو ان کی خفیہ شرارتوں سے باز رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ اپنی مفسدانہ حرکات کا انکار کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم تو یہ بغیر اصلاح کے اور کچھ کرتے ہی نہیں ہیں ۔ حضرت حق ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ لوگ ہیں تو پرلے درجے کے مفسد اور شرارتی کیونکہ نہ تو خود اسلام قبول کرتے ہیں نہ دوسروں کو اسلام لانے دیتے ہیں لیکن ان کو اپنے مفسد ہونیکا احساس نہیں ۔ ( تسہیل)
Top