Kashf-ur-Rahman - Al-Israa : 66
رَبُّكُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
رَبُّكُمُ : تمہارا رب الَّذِيْ : وہ جو کہ يُزْجِيْ : چلاتا ہے لَكُمُ : تمہارے لیے الْفُلْكَ : کشتی فِي الْبَحْرِ : دریا میں لِتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : نہایت مہربان
لوگو ! تمہارا رب وہ ہے جوت مہارے لئے دریا میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل یعنی روزی تلاش کرو اس میں شک نہیں کہ خدا تم پر بہت مہربان ہے۔
-66 لوگو تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے نفع کے لئے دریا میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل یعنی روزی تلاش کرو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر بہت مہربان اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔ دریا اور سمندر ایک ملک کو دوسرے ملک کے ملنے میں حائل ہے قدرت نے کشتیوں کے سفر سے ایک ملک کا دوسرے ملک سے جوڑ لگا دیا ہے جس سے تجارت میں بڑی ترقی ہوتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اس کا فضل یعنی روزی، روزی کو قرآن کریم میں اکثر فضل فرمایا ہے فضل کے معنی زیادتی سو مسلمان کی بندگی ہے واسطے آخرت کے اور دنیا ملتی ہے بڑھتی میں کشتی ہانکتا ہے یعنی دریا میں اپنا زور نہیں چلتا بلی یا چپوپر مگر بادسو اسی کے اختیار میں ہے۔ 12
Top