Kashf-ur-Rahman - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور اے مخاطب جس بات کی تجھے تحقیق نہ ہو اس کے پیچھے نہ ہو لیا کر کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں ہر شخص سے باز پرس کی جائے گی۔
-36 اور اے مخاطب جس بات کی تجھ کو صحیح تحقیق نہ ہو اس کے پیچھے خواہ قولاً خواہ فعلاً نہ ہو لیا کر کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں ہر ایک شخص سے باز پرس ہوگی۔ یعنی جب تک کسی چیز کی تحقیق نہ کرلو اس پر عمل نہ کرو اور اس کو زبان سے نہ کالو اس نہی میں تمام امور داخل ہوگئے۔ جھوٹی تہمت جھوٹی شہادت محض سنی سنائی باتوں پر کسی سے بغض و عداوت یا محض باپ دادا کی رسوم کفر یہ اور شرکیہ اختیار کرلینا۔ کیونکہ کان سے بھی سوال ہوگا کہ تم نے ان سے کیا کیا سنا اور آنکھوں سے بھی سوال ہوگا کہ تم نے ان سے کیا کیا دیکھا اور دل سے بھی سوال ہوگا کہ تم نے اس میں کس کی محبت اور کس کی عبادت رکھی۔ غرض انسان کے تمام ہی قوائے جسمانی کے متعلق سوال کیا جائے گا اس لئے ہر فعل اور ہر عمل میں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہئے اور ان چیزوں کو ان ہی باتوں میں استعمال کرنا چاہئے جو جائز ہوں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی جو بات تحقیق معلوم نہ ہو اس کو دعویٰ کر کر نہ کہے کہ یوں ہی ہے اور ایسی ہی گواہی دیں۔ 12
Top