Kashf-ur-Rahman - Al-Israa : 100
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ : اگر اَنْتُمْ : تم تَمْلِكُوْنَ : مالک ہوتے خَزَآئِنَ : خزانے رَحْمَةِ : رحمت رَبِّيْٓ : میرا رب اِذًا : جب لَّاَمْسَكْتُمْ : تم ضرور بند رکھتے خَشْيَةَ : ڈر سے الْاِنْفَاقِ : خرچ ہوجانا وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان قَتُوْرًا : تنگ دل
اے پیغمبر آپ ان سے فرمائیے اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مختار ہوتے تو تم ان خزانوں کو بھی اس دور سے روک رکھتے کہ کہیں خرچ نہ ہوجائیں اور انسان بڑا ہی تنگ دل واقع ہوا ہے۔
- 100 اے پیغمبر ! آپ ان سے فرمائیے اگر تم میرے پروردگار کی رحمت کے خزانوں کے مختار ہوتے تو تم ان خزانوں کو بھی اس خوف سے روک رکھتے کہ کہیں خرچ نہ ہوجائیں اور انسان بڑا ہی دل تنگ واقع ہوا ہے۔ یعنی رحمت رب عام طور سے نبوت کے لئے قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اس لئے شاید یہ اس شبہ کا جواب ہو جو یہ منکر کیا کرتے تھے کہ ابن عبداللہ کو کیوں یہ قرآن کریم دیا گیا اور ان کو کیوں نبوت دی گئی ۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر پروردگار کی رحمت کے خزانے تم کو دے دیئے جاتے تو تم اس میں بھی بخل کرتے اور خرچ ہوجانے کے خوف سے اپنا ہاتھ روک لیتے۔ چنانچہ ایسا نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے خزانے خود ہی تقسیم کئے اور جس کو اہل پایا اور جس میں صلاحیت پائی اس کو اپنی رحمت یعنی نبوت سے سرفراز فرمایا چوں کہ نبوت کی بحث اوپر سے ہو رہی ہے اس مناسبت سے ہم نے یہ معنی کئے ہیں ورنہ آیت کے معنی اور طرح بھی کئے گئے ہیں۔ بخل کی مذمت تو ظاہر ہی ہے۔ جیسے پانچویں پارے میں فرمایا۔ ام لھم نصیب من الملک فاذ الایئوتون الناس نقیرا۔ ابن کثیر نے اس آیت کو بخل کی مذمت پر حمل کیا ہے اور یہی معنی لئے ہیں۔
Top