Jawahir-ul-Quran - Al-An'aam : 38
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ١ؕ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور لَا : نہ طٰٓئِرٍ : پرندہ يَّطِيْرُ : اڑتا ہے بِجَنَاحَيْهِ : اپنے دو پروں سے اِلَّآ : مگر اُمَمٌ : امتیں (جماعتیں اَمْثَالُكُمْ : تمہاری طرح مَا فَرَّطْنَا : نہیں چھوڑی ہم نے فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مِنْ : کوئی شَيْءٍ : چیز ثُمَّ : پھر اِلٰى : طرف رَبِّهِمْ : اپنا رب يُحْشَرُوْنَ : جمع کیے جائیں گے
اور نہیں ہے کوئی چلنے والاف 44 زمین میں اور نہ کوئی پرندہ کہ اڑتا ہے اپنے بازوؤں سے مگر ہر ایک امت ہے تمہاری طرح ہم نے نہیں چھوڑی لکھنے میں کوئی چیز پھر سب اپنے رب کے سامنے جمع ہوں گے45
44 یہ توحید پر پانچویں دلیل عقلی ہے۔ دابۃ کے بعد فی الارض اور طائر بعد یَطِیْرُ بِجَنَاحِیَہِ صفات کاشفہ ہیں یعنی تمہارے علاوہ باقی تمام جاندار مخلوق بھی تمہاری طرح مختلف جماعتیں ہیں اور تمہاری طرح محتاج اور ضرورت مند ہیں ان سب کا رازق اور متصرف و مختار اللہ تعالیٰ ہی ہے دوسرا کوئی نہیں مَا فَرَّطْنَا فِیْ الْکِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ۔ معتزلہ کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لکھنے میں تفریط نہیں کر رہے اور کتاب سے مراد فرشتوں کے دفتر ہیں۔ اب یہ تخویف اخروی ہوگی اور اہل سنت کے نزدیک کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے۔ عن الحسن و قتادۃ ان المراد بالکتاب الکتاب الذی عند اللہ تعالیٰ وھو مشتمل علی ما کان و ما یکون وھو اللوح المحفوظ (روح ج 7 ص 14) اسی طرح شاہ عبداقادر صاحب (رح) نے لکھا ہے۔ 45 یہ بھی تخویف اخروی ہے۔ پہلے جانوروں اور پرندوں کے ذکر سے وہم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن انسانوں کے ساتھ ان کا بھی حشر ہوگا لیکن ایسا نہیں۔ یہاں صرف انسانوں کا حشر مراد ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے جو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یقتص للجماء من القرناء تو یہ حقیقت پر محمول نہیں بلکہ یہ اس سے کنایہ ہے کہ ظالم سے مظلوم کا بدلہ لیا جائیگا اور اگر بالفرض جانوروں کا حشر مراد لیا جائے تو ان کے حشر سے مراد موت ہوگی نہ کہ جزا وسزا جیسا کہ جامع البیان میں حضرت عبداللہ بن عابس سے منقول ہے۔ حشر کل شیءٍ الموت سوی الجن والانس (ص 504) تحت قولہ واذ الوحوش حشرت۔
Top