Jawahir-ul-Quran - An-Nisaa : 157
وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ١ؕ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ١ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢاۙ
وَّقَوْلِهِمْ : اور ان کا کہنا اِنَّا : ہم قَتَلْنَا : ہم نے قتل کیا الْمَسِيْحَ : مسیح عِيْسَى : عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم رَسُوْلَ : رسول اللّٰهِ : اللہ وَمَا قَتَلُوْهُ : اور نہیں قتل کیا اس کو وَمَا صَلَبُوْهُ : اور نہیں سولی دی اس کو وَلٰكِنْ : اور بلکہ شُبِّهَ : صورت بنادی گئی لَهُمْ : ان کے لیے وَاِنَّ : اور بیشک الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا : جو لوگ اختلاف کرتے ہیں فِيْهِ : اس میں لَفِيْ شَكٍّ : البتہ شک میں مِّنْهُ : اس سے مَا لَهُمْ : نہیں ان کو بِهٖ : اس کا مِنْ عِلْمٍ : کوئی علم اِلَّا : مگر اتِّبَاعَ : پیروی الظَّنِّ : اٹکل وَ : اور مَا قَتَلُوْهُ : اس کو قتل نہیں کیا يَقِيْنًۢا : یقیناً
اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح104 عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اللہ کا اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں اور اس کو قتل نہیں کیا بیشک
104 یہ بھی یہود کا ایک جھوٹا دعویٰ تھا کہ ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو قتل کردیا ہے وَمَا قَتَلُوْہٗ وَ مَا صَلَبُوْ ہٗ یہاں ان کے غلط دعوے کی تردیدکردی کہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ان کے خبیث ہاتھوں سے بچالیا۔ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُم۔ اس کے دو معنی ہیں اول یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شکل ایک دوسرے شخص پر ڈال دی گئی اور اسے ان کا شبیہ اور ہمشکل بنا دیا گیا جسے یہودیوں نے مسیح سمجھ کر سولی دے دی جیسا کہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب یہود حضرت مسیح (علیہ السلام) کو سولی دینے کے لیے گرفتار کرنے گئے تو ایک شخص طیطانوس نامی کو اس مکان میں داخل کیا جس میں حضرت مسیح (علیہ السلام) تھے جب طیطانوس اندر داخل ہوا تو مسیح (علیہ السلام) کو وہاں نہ پایا کیونکہ اللہ نے آسمان پر اٹھا لیا اور طیطانوس کو ان کا ہمشکل بنا دیا وہ باہر نکلا تو یہودیوں نے اسے مسیح سمجھ کر سولی پر لٹکا دیا۔ چونکہ یہ شخص سخت ترین شریر تھا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو اس سے سخت اذیت پہنچی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس طرح کی شرارتوں کا بدلہ دیدیا۔ دوم یہ کہ وَلٰکنْ شُبِّہَ لَھُمْ (یعنی معاملہ ان کے لیے مشتبہ کردیا گیا) یہ ان یہودیوں کے بارے میں ہے جو اپنے آباء و اجداد کی تقلید میں کہتے چلے آرہے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو سولی دیدی گئی اور یہ شبہ میں ڈالنے والے زمانہ مسیح کے علماء سو تھے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے ہاتھوں سے نکل گئے تو انہوں نے ظلماً کسی کو پکڑ کر پھانسی دیدی اور کسی کو اسے دیکھنے نہیں دیا اور نہ کسی کو اس کے قریب آنے دیا اور پھر اسے دفن کردیا اور لوگوں میں یہ بات مشہور کردی کہ انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو پھانسی دیدی ہے اس سے لوگوں کو شبہ پڑگیا کہ شاید ایسا ہی ہوا اور اس معاملے کا چونکہ عینی اور چشم دید گواہ کوئی نہیں تھا اس لیے یہ بات شب ہے سے آگے بڑھ کر یقین کی حد تک نہ پہنچی۔ یہ قول حضرت مولانا انور شاہ صاحب نے امام ابن حزم کی کتاب الملل والنحل سے عقیدۃ الا اسلام (ص 177) میں نقل کیا ہے اور حضرت شیخ (رح) نے اسی کو ترجیح دی ہے۔
Top