Jawahir-ul-Quran - Al-Furqaan : 77
قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ١ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَكُوْنُ لِزَامًا۠   ۧ
قُلْ : فرما دیں مَا يَعْبَؤُا : پرواہ نہیں رکھتا بِكُمْ : تمہاری رَبِّيْ : میرا رب لَوْلَا دُعَآؤُكُمْ : نہ پکارو تم فَقَدْ كَذَّبْتُمْ : تو جھٹلا دیا تم نے فَسَوْفَ : پس عنقریب يَكُوْنُ : ہوگی لِزَامًا : لازمی
تو کہہ50 پروا نہیں رکھتا میرا رب تمہاری اگر تم اس کو نہ پکارا کرو سو تم تو جھٹلا چکے اب آگے کو ہونی ہے مٹھ بھیڑ
50:۔ ” قل ما یعبؤا بکم الخ “ یہ تخویف دنیوی ہے اور خطاب مشرکین مکہ سے ہے۔ بکم میں باء تعدیہ کیلئے ہے۔ ربی، یعبؤا کا فاعل ہے۔ دعاء کم مصدر مفعول کی طرف مضاف ہے اور فاعل اللہ ہے اور لولا کا جواب محذوف ہے ای لعذبکم۔ اصل عبادت اس طرح ہوگی۔ لو لا دعاء اللہ ایاکم لعذبکم۔ یعنی میرے پیغمبر آپ فرما دیں میرے رب کو تمہاری پروا نہیں اگر تمہیں اللہ کی طرف سے توحید کی دعوت نہ ہوتی تو تمہیں عذاب سے جلد ہلاک کردیا جاتا لیکن اللہ کی سنت جاریہ یہ ہے کہ تبلیغ دعوت سے پہلے وہ کسی کو نہیں پکڑتا۔ جیسا کہ ارشاد ہے ” وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا “ یا ” ما یعبؤا بکم ربی “ لولا کا جواب ہے جیسا کہ امام نسفی، ابو السعود اور دیگر مفسرین کی تاویل سے مفہوم ہوتا ہے۔ ما یصنع بکم ربی لولا دعاءہ ایاکم الی الاسلام (مدارک، ابو السعود وغیرہما) ۔ ” فقد کذبتم الخ “ لیکن اب تمہیں دعوت توحید پہنچ چکی اور تم اس کی تکذیب بھی کرچکے لہذا اب عنقریب تم کو جزائے تکذیب لازم ہے۔ چناچہ جنگ بدر میں ان کو تکذیب کی عبرتناک سزا دی گئی۔ بعض کے نزدیک آخرت کا عزاب مراد ہے۔ ثم قیل ھذا العذاب فی الاخرۃ وقیل کان یوم بدر وھو قول مجاھد (کبیر ج 6 ص 504) ۔ ” فسوس یکون الخ “ یکون کی ضمیر سے مراد جزائے تکذیب ہے۔ سورة فرقان میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1 ۔ ” تبرک الذی نزل الفرقان “ تا ” وخلق کل شیء فقدرہ تقدیرا “ نفی شرک فی التصرف، و نفی برکات از غیر اللہ۔ 2 ۔ ” لا یخلقون شیئا و ھم یخلقون “ تا ” ولا یملکون موتا ولا حیوۃ ولا نشورا “ معبودان باطلہ نہ خالق ہیں نہ مالک و متصرف، نفع نقصان اور موت وحیات بھی ان کے اختیار میں نہیں لہذا وہ برکات دہندہ بھی نہیں ہیں۔ 3:۔ ” الذی یعلم السر “ تا ” انہ کان غفورا رحیما “۔ اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے لہذا برکات دہندہ بھی وہی ہے۔ 4:۔ ” ویم یحشرھم و ما یعبدون “ تا ” فما تستطیعون صرفا و لا نصرا “ (رکوع 2) ۔ یہ سورت کی خصوصیت ہے مشرکین دنیا میں جن بزرگوں کو برکات دہندہ سمجھتے اور حاجات میں پکارتے ہیں، قیامت کے دن وہ اپنے کارساز اور برکات دہندہ ہونے سے صاف انکار کریں گے۔ 5:۔ ” و اذا راوک ان یتخذونک “ تا ” افانت تکون علیہ وکیلا “ (رکوع 4) ۔ خصوصیت سورت۔ جس نے بھی مسئلہ توحید پیش کیا لوگوں نے اس سے استہزاء کیا۔ مشرکین اپنی خواہش نفس سے جس کو چاہتے ہیں برکات دہندہ سمجھ کر پکارنے لگتے ہیں۔ 6:۔ ” الم تر الی ربک کیف مد الظل “ تا ” خلقنا انعاما و اناسی کثیرا “ (رکوع 5) ۔ جب یہ تمام تصرفات اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں تو برکات دہندہ بھی وہی ہے۔ 7:۔ ” ویعبدون من دون اللہ “ تا ” علی ربہ ظھیرا “ خصوصیت سورت۔ جو نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔ مشرکین ان و برکات دہندہ سمجھ کر پکارتے ہیں۔ سورة فرقان ختم ہوئی
Top