Jawahir-ul-Quran - Al-Furqaan : 2
اِ۟لَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا
الَّذِيْ لَهٗ : وہ جس کے لیے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلَمْ يَتَّخِذْ : اور اس نے نہیں بنایا وَلَدًا : کوئی بیٹا وَّلَمْ يَكُنْ : اور نہیں ہے لَّهُ : اس کا شَرِيْكٌ : کوئی شریک فِي الْمُلْكِ : سلطنت میں وَخَلَقَ : اور اس نے پیدا کیا كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے فَقَدَّرَهٗ : پھر اس کا اندازہ ٹھہرایا تَقْدِيْرًا : ایک اندازہ
وہ کہ جس کی ہے سلطنت4 آسمان اور زمین میں اور نہیں پکڑا اس نے بیٹا اور نہیں کوئی اس کا ساجھی سلطنت میں اور بنائی ہر چیز پھر ٹھیک کیا اس کو ناپ کر  
4:۔ ” الذی لہ الخ “: یہ دوسری عقلی دلیل ہے زمین و آسمان کی سلطنت اور سارے جہان کا نظام کار اسی کے ہاتھ میں ہے۔ زمین و آسمان کی بادشاہی میں کوئی اس کا نائب اور شریک نہیں لہذا اس کے سوا برکات دہندہ بھی کوئی نہیں۔ ” وخلق کل شیء الخ “ یہ تیسری عقلی دلیل ہے اور اسی ہی نے ہر چیز کو اس کے صحیح معیار کے مطابق پیدا فرمایا۔ جب ہر چیز کا خالق ومالک وہی ہے اور تخت بادشاہی پر بھی بھی وہی متمکن ہے تو بتاؤ برکات دینے والا کوئی اور ہوگا ؟ ہرگز نہیں ! لہذا وہی برکات دہندہ ہے۔ ” لم یتخذ ولدا “ کی تعبیر بتا رہی ہے کہ یہاں نسبی ولدیت کی نفی مقصود ہے جو اللہ کے نیک بندوں کو اس کے لیے بمنزلہ اولاد سمجھتے تھے یعنی کسی کو اس نے اولاد کی طرح نائب اور کار مختار نہیں بنا رکھا، ای لم ینزل احدا منزلۃ الولد (روح ج 18 ص 232) ولم یخذ ولدا الظار نفی الاتخاذ ای لم ینزل احدا منزلۃ الولد (بحر ج 6 ص 480) ولم یتخذ ولدا فبین سبحانہ انہ ھو المعبود ابدا ولا یصح ان یکون غیرہ معبود او وارثا للملک عنہ (کبیر ج 6 ص 445) ۔ ” فقدرہ تقدیرا “ ہر چیز کو ٹھیک ٹھیک اندازے کیساتھ وہی رکھتا ہے تو کیا برکت ڈالنے والا کوئی اور ہوگا۔
Top