Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 75
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
اَفَتَطْمَعُوْنَ : کیا پھر تم توقع رکھتے ہو اَنْ : کہ يُؤْمِنُوْا : مان لیں گے لَكُمْ : تمہاری لئے وَقَدْ کَانَ : اور تھا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان سے يَسْمَعُوْنَ : وہ سنتے تھے کَلَامَ اللہِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر يُحَرِّفُوْنَهُ : وہ بدل ڈالتے ہیں اس کو مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جو عَقَلُوْهُ : انہوں نے سمجھ لیا وَهُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
اب کیا تم اے مسلمانو توقع رکھتے ہو کہ وہ مانیں تمہاری بات149 اور ان میں ایک فرقہ تھا کہ سنتا تھا اللہ کا کلام پھر بدل ڈالتے تھے اس کو جان بوجھ کر اور وہ جانتے تھے
149 ۔ یہاں ہمزہ استفہام انکار وتوبیخ کے لیے اور خطاب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو ہے مطلب یہ کہ آپ ان یہود سے یہ توقع نہ رکھیں کہ یہ ایمان لے آئیں گے کیونکہ ان کے اس وقت یہ پانچ گروہ ہیں اور ان سب کی خباثت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ان سے ایمان کی توقع بیکار ہے۔ وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ ۔ اس فریق سے یہود کے وہ علمائ مراد ہیں جوحضور ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے۔ المراد بالفریق من کان فی زمن محمد (علیہ الصلوۃ والسلام) (کبیر ص 575 ج 1) قال مجاھد الذین یحرفونہ والذین یکتمونہ ھم العلمائ منھم (ابن کثیر ص 115 ج 1) اور کلام اللہ سے مراد توراۃ ہے ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ ۔ یہود کے علمائ اچھی طرح جانتے تھے کہ محمد ﷺ خدا کے آخری رسول ہیں اور توراۃ میں جس آخری پیغمبر کا ذکر ہے وہ آپ ہی ہیں مگر جان بوجھ کر وہ ان آیتوں میں تحریف کرتے جن میں آپ کے اوصاف مذکور ہوتے تھے۔ ان کی یہ تحریف کسی غلط فہمی پر مبنی نہ تھی بلکہ دیدہ و دانستہ تھی عمدوا الی ما انزلہ اللہ فی کتابہم من نعت محمد ﷺ فحرفوہ عن مواضعہ (ابن کثیر ص 115 ج 1) یہاں تحریف عام ہے لفظی اور معنوی دونوں کو شامل ہے۔ علمائ یہود دونوں طرح کی تحریف کیا کرتے تھے۔ کبھی توراۃ کی آیتوں کے الفاظ ہی تبدیل کردیتے اور کبھی ان کے مضمون کو اس طرح مسخ کر کے بیان کرتے کہ اصل مطلب سے انہیں کوئی تعلق ہی باقی نہ رہ جاتا۔ قرآن مجید کے الفاظ میں تو تحریف ناممکن ہے۔ البتہ قرآن کی معنوی تحریف کرنے والے یہودیوں کے جانشین مولویوں اور پیروں کی آج امت محمدیہ میں بھی کمی نہیں۔ قرآن مجید کی معنوی تحریف کی ایک دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔ پنجاب کے ایک پیر قرآن مجید کی ایک آیت اِنّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُم کی تفسیر یوں کیا کرتے تھے کہ یہاں اَنَا کی خبر محذوف ہے اصل میں یہ آیت یوں تھی انما انا بشر مثلکم یعنی میں تو میں ہوں اور بشر تمہاری طرح ہوا کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ بڑے بڑے مولویوں اور پیروں کو یہ کہتے ہوئے سنیں گے کہ قرآن میں جہاں کہیں من دون اللہ یعنی غیر خدا کی عبادت کرنے سے منع کیا گیا ہے وہاں عبادت سے مراد بندگی ہے۔ غائبانہ دعائ و پکار مراد نہیں۔ اسی طرح من دون اللہ سے مراد بت ہیں نہ کہ اللہ کے نیک بندے حالانکہ عبادت کے معنی صحیح حدیث میں پکار اور دعائ کے آئے ہیں۔ نیز من دون اللہ سے خود قرآنی تصریحات کے مطابق کہیں انبیائ اور کہیں فرشتے مراد ہیں۔ کہیں اولیائ اللہ اور کہیں جن مراد ہیں اور کہیں بت بھی مراد ہیں۔ مگر مولوی اور پیر اصل حقیقت کو جانتے پہچانتے ہوئے محض حقیر دنیا کی خاطر عوام کو اصل بات نہیں بتاتے۔ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ ۔
Top