Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو لڑتے ہیں تم سے اور کسی پر زیادتی مت کر363 بیشک اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے زیادتی کرنے والوں کو
363 ربط۔ دوسرے حصہ میں پہلے تین امور انتظامیہ بیان فرمائے کیونکہ نظم ونسق اور اتحاد باہمی کے بغیر جہاد ناممکن ہے۔ پھر ایک اور امر مصلح بیان فرمایا کہ باطن کی صفائی ہو اور امور انتظامیہ پر بخوشی عمل کیا جاسکے اب آگے اصل مضمون کا ذکر ہے یعنی امر قتال اور یہ قتال محض اللہ کی توحید کو بلند کرنے کے لیے ہے۔ مسلمانوں نے مکہ میں پورے تیرہ برس انتہائی مظلومیت کی حالت میں گذارے۔ مشرکین کی طرف سے ہر قسم کی ایذائیں اور تکلیفیں برداشت کیں۔ آخر مدینہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے مگر دشمنوں نے وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی اپنی مدافعت کے لیے جنگ کرنے کی اجازت دیدی۔ لیکن ساتھ ہی تین شرطیں بھی عائد فرما دیں۔ اول یہ کہ لڑائی میں پہل نہ کریں اور صرف اس صورت میں لڑیں جبکہ کفار خود لڑائی کا آغاز کریں۔ ظاھرہ من یناجزکم القتال ابتداء او دفعاً عن الحق (بحر ص 65 ج 2) دوم لڑائی صرف انہیں سے کی جائے جو میدان جنگ میں تم سے لڑ رہے ہیں یا دشمن کو کمک پہنچا رہے ہیں یا انہیں جنگ کی تدبیریں بتا رہے ہیں۔ اور جو لوگ لڑائی میں کسی قسم کا حصہ نہیں لے رہے ان سے تعرض نہ کیا جائے یہ دونوں شرطیں۔ الذین یقاتلونک سے مفہوم ہیں تیسری شرط ولا تعتدوا کہ حد سے تجاوز نہ کرو۔ اس کے متعلق حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کا قول ہے۔ لا تقال من لا یقاتلک یعنی النساء والصبیان والرھبان (ابن جریر ص 107 ج 2) یعنی جو لوگ لڑنے کے قابل نہیں یا لڑائی میں شریک نہیں ہیں مثلاً عورتیں، بچے اور ان کے مذہبی رہنما وغیرہ انہیں مت قتل کرو۔ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۔ (اللہ کی راہ میں) یہاں سبیل سے مراد اللہ کا دین اور اس کی توحید ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے دین کو عزت حاصل ہو اور کلمۂ توحید سربلند ہو۔ ای جاھدوالاعزاز الدین واعلاء کلمته (روح ص 74 ج 2) اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ ۔ یہ حکم ماقبل کی علت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ مقررہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
Top