Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 188
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بالْبَاطِلِ : ناحق وَتُدْلُوْا : اور (نہ) پہنچاؤ بِهَآ : اس سے اِلَى الْحُكَّامِ : حاکموں تک لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھاؤ فَرِيْقًا : کوئی حصہ مِّنْ : سے اَمْوَالِ : مال النَّاسِ : لوگ بِالْاِثْمِ : گناہ سے وَاَنْتُمْ : اور تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کا آپس میں ناحق355 اور نہ پہنچاؤ ان کو حاکموں تک356 کہ کھا جاؤ کوئی حصہ لوگوں کے مال میں سے ظلم کر کے (نا حق) تم کو معلوم ہے357
355 یہاں کھانے سے لینا اور قبضہ کرنا مراد ہے۔ المراد من الاکل مایعم الاخذ والاستیلاء (ص 69 ج 2) باطل سے مراد ہر وہ طریقہ ہے جو حرام ہو اور شریعت کی نظروں میں ناپسندیدہ ہو۔ والمراد من الباطل الحرام کالسرقہ والغصب وکل ما لم یاذن باخذہ الشروع (روح ص 70 ج 2) تو اس تفسیر کے مطابق توحید اور حق چھپانے کی بنا پر جو نذریں، نیازیں اور تحفے تحائف وصول ہوں گے وہ بھی باطل ذریعے کے تحت داخل ہوں گے۔ اسی طرح رشوت، جھوٹے مدعی کی وکالت اور دیگر غیر شرعی پیشوں سے جو کمائی حاصل ہوگی وہ سب اس کے تحت آئے گی۔ 356 اس کا عطف تاکلوا پر ہے یعنی نہ غیر شرعی اور حرام ذریعے سے ایک دوسرے کا مال کھاؤ اور نہ ہی اپنا مال بطور رشوت حاکموں کو دو ۔ لتاکلوا فریقاًًًً من اموال الناس بالاثم۔ حکام کو رشوت دینے کا مقصد ہمیشہ یہی ہوا کرتا ہے کہ جو فیصلہ اپنے خلاف جاتا ہو اسے اپنے حق میں کرالیا جائے اور اس طرح ناجائز طور پر ایک اصل حقدار کی حق تلفی کر کے غیر شرعی طریقے سے اس پر قبضہ کیا جائے رشوت دینے کے اس گھٹیا مقصد کو اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر کیا ہے۔ یعنی اس گھٹیا اور غیر شرعی مقصد کی خاطر حاکموں کو رشوت نہ دو ۔357 اور تم اچھی طرح جانتے ہو کہ تم دوسرے بھائی کی حق تلفی کر رہے ہو۔ اور اس کے مال پر ناجائز قبضہ کر رہے ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص رشوت دے کر یا اپنی چرب زبانی کے ذریعے جج یا قاضی سے اپنے حق میں فیصلہ کرا کر دوسرے کا مال حاصل کرلیتا ہے تو قاضی کا فیصلہ اگرچہ بظاہر نافذ ہوجائے گا۔ مگر عنداللہ وہ شخص سخت مجرم ہے اور اس کا مال لینا اس کے لیے حرام ہے کیونکہ قاضی یا جج کے فیصلہ سے حرام چیز حلال نہیں ہوسکتی۔ ومن الاکل بالباطل ان یقضی القاضی لک وانت تعلم انک مبطل فالحرام لا یصیر حلالا بقضاء القاضی لانہ انما یقضی بالظاھر وھذا جماع فی الاموال (قرطبی ص 338 ج 2)
Top