Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 184
اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ وَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍ١ؕ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ١ؕ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اَيَّامًا : چند دن مَّعْدُوْدٰتٍ : گنتی کے فَمَنْ : پس جو كَانَ : ہو مِنْكُمْ : تم میں سے مَّرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر فَعِدَّةٌ : تو گنتی مِّنْ : سے اَ يَّامٍ اُخَرَ : دوسرے (بعد کے) دن وَعَلَي : اور پر الَّذِيْنَ : جو لوگ يُطِيْقُوْنَهٗ : طاقت رکھتے ہیں فِدْيَةٌ : بدلہ طَعَامُ : کھانا مِسْكِيْنٍ : نادار فَمَنْ : پس جو تَطَوَّعَ : خوشی سے کرے خَيْرًا : کوئی نیکی فَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ لَّهٗ : بہتر اس کے لیے وَاَنْ : اور اگر تَصُوْمُوْا : تم روزہ رکھو خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
چند روز ہیں گنتی کے پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا مسافر تو اس پر ان کی گنتی ہے اور دنوں سے339 اور جن کو طاقت ہے روزہ کی ان کے ذمہ بدلا ہے ایک فقیر کا کھانا340 پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو اچھا ہے اس کے واسطے اور روزہ رکھو تو بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم سمجھ رکھتے ہو
339 بعض مفسرین کا خیال ہے کہ شروع میں روزے علی التخییر فرض تھے یعنی ہر آدمی کو اکتیار تھا کہ چاہے وہ روزے رکھے یا اگر طاقت ہو تو ہر روزہ کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلادے بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض کا خیال ہے یہاں لا مقدر ہے اور اصل میں عبارت یوں ہے۔ ۭ وَعَلَي الَّذِيْنَ لَايُطِيْقُوْنَهٗ ۔ یا ہمزۂ افعال سلب ماخذ کیلئے ہے اور ضمیر منصوب سے مراد روزہ ہے اور اس میں شیخ فانی، حاملہ اور دودھ پلانیوالی عورت کا حکم بیان کیا گیا ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ یطیقونہ میں ضمیر منصوب فدیہ کی طرف راجع ہے جو بعد میں مذکور ہے لیکن رتبۃً مقدم ہے کیونکہ وہ مبتداء موخر ہے اور اس آیت سے مراد صدۃ الفطر کا حکم ہے یعنی جو لوگ صدقۃ الفطر کی طاقت رکھتے ہیں ان پر صدقۃ الفطر واجب ہے (الفوز الکبیر) اور مولانا انور شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ یہاں ایام بیض کے روزوں کا ذکر ہے اور یہ حکم انہی سے متعلق ہے اور اب بھی یہ حکم باقی ہے۔ ایام بیض کے روزوں میں تخییر ہے چاہے روزے رکھے یا ہر روزہ کے عوض فدیہ دیدے۔ کیونکہ ابھی تک رمضان کی فرضیت نازل نہیں ہوئی تھی۔ وھذا الحکم ایضا یتعلق بالایام البیض ولا تعلق لہ برمضان الخ (فیض البار ج 3 ص 145) دوسری توجیہ یہ فرمائی کہ اطاق یطیق کا استعمال وہاں ہوتا ہے جہاں کوئی چیز بڑی مشقت سے برداشت کی جائے۔ مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ مشکل اور مشقت سے روزہ رکھ سکیں۔ وہ فدیہ دیدیں تو اس صورت میں اس سے مراد رمضان کے روزے ہوں گے۔ اور یہ آیت شیخ فانی کے حق میں ہوگی اور اس صورت میں لا کو مقدر کرنے یا ہمزہ کو سلب ماخذ کے لیے ماننے کی ضرورت نہ رہے گی یہ علامہ سے منقول ہے۔ قال الزمخشری ما حاصلہ ان فعل الاطاقۃ بما دتہ لا یستعمل الا فیما یتعذر او یتعسر الخ (فیض البار ص 946 ج 3)340 فدیہ کی معین مقدار تو بہرحال لازم ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے اس کی مقدار میں اضافہ کردے یا ایک کی بجائے دو مسکین کو کھانا کھلا دے تو یہ اس کے لیے اور بہتر اور مزید اجر وچواب کا موجب ہے۔ ای زاد علی مسکین واحد فاطعم مکان کل یوم مسکینین فاکثرو قیل من زاد علی القدر الواجب علیہ فاعطی صاعا وعلیہ مد (معالم ص 130 ج 1) وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ ۔ اَنْ مصدریہ ہے اور ان تصوموا بتاویل مفرد مبتدا ہے اور خیر لکم اس کی خبر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سفر اور بیماری کی حالت میں گرچہ رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے لیکن اگر سفر میں زیادہ تکلیف کا احتمال نہ ہو اور بیماری بھی زیادہ شدید نہ ہو تو روزہ رکھنا بہتر ہے وان تصوموا فی السفر والمرض غیر الشاق (قرطبی ص 290 ج 2) اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ اِنْ کا جواب محذوف ہے ای اخترتموہ یعنی اگر تمہیں معلوم ہو کہ روزہ رکھنے میں کیا فضیلت ہے تو تم سفر اور بیماری میں بھی روزہ رکھو۔
Top