Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 168
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے النَّاسُ : لوگ كُلُوْا : تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : اور پاک وَّلَا : اور نہ تَتَّبِعُوْا : پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اے لوگوں کھاؤ زمین کی چیزوں میں سے حلال پاکیزہ307 اور پیروی نہ کرو شیطان کی308 بیشک وہ تمہارا دشمن ہے صریح
307:۔ دلائل توحید اور مشرکین کے لیے تخویف اخروی کے بعد اب آگے شرک فعلی کی دونوں قسموں یعنی تحریم لغیر اللہ اور نذر لغیر اللہ یا بالفاظ دیگر تحریمات مشرکین اور نیازات مشرکین کی تردید کی گئی ہے۔ مشرکین اپنے معبودوں کو خوش کرنے کے لیے دو قسم کا شرک فعلی کیا کرتے تھے۔ ایک تو یہ وہ جانوروں کو اپنے معبودوں کے لیے نامزد اور معین کر کے چھوڑ دیتے تھے۔ وہ جہاں چاہیں بلا روک گھو میں پھریں اور کھائیں پئیں۔ اور اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس سے ہمارے معبود ہم پر خوش اور مہربان ہوجائیں گے اور آڑے وقت ہماری مدد کریں گے اور ہمارے مال وجان میں برکت دیں گے اور ہم سے بیماری اور تکلیف دور کریں گے۔ ایسے جانوروں کے متعلق انہوں نے یہ عقیدہ بنایا ہوا تھا کہ ان کا کھانا، ان کا دودھ پینا اور ان سے کسی قسم کا انتاع جائز نہیں۔ وہ اس کے کھانے اور اس سے انتفاع کو حرام سمجھتے تھے اور ڈرتے تھے کہ اگر ہم نے اس جانور کو استعمال کیا یا اسے کوئی تکلیف پہنچائی تو ہمارے معبود ہم پر ناراض ہوجائیں گے اور ہمیں تکلیف پہنچائیں گے تو یہ مشرک اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اپنے معبودوں کی خوشی کے لیے محض اپنے وہم باطل اور خیال خام کے تحت حرام کردیتی تھے۔ حالانکہ انہیں اس کا کوئی حق نہیں تھا۔ یہ تو تحریمات مشرکین یا تحریمات لغیر اللہ ہیں۔ شرک فعلی کی دوسری قسم یہ تھی کہ وہ مصائب سے نجات اور مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنے معبودوں کی نذریں اور منتیں مانتے تھے۔ مثلاً کہتے تھے کہ اگر ہمارا فلاں کام ہوگیا یا فلاں مصیبت ٹل گئی تو ہم فلاں معبود کے استھان اور اس کی عبادت گاہ پر غلہ، نقدی، کپڑا یا کوئی جانور بطور نذر ونیاز لے جائینگے یا وہاں لے جائے بغیر ہی غربا میں تقسیم کردیں گے۔ اور کھی ایسا بھی کرتے تھے کہ حاجت اور مصیبت کے بغیر ہی اپنے مال مویشی میں اپنے معبودوں کا حصہ مقرر کردیتے تھے اور اس سے ان کا یہ مقصد ہوتا تھا کہ ہمارے معبود ہم سے خوش رہیں گے اور ہمارے مال وجان میں برکت دینگے اور ہمارے مال وجان کو مصائب اور بیماریوں سے محفوظ رکھیں گے۔ یہ نذور مشرکین یا نذور لغیر اللہ کہلاتی ہیں اور ان کے متعلق مشرکین کا عقیدہ تھا کہ ان کا کھانا اور استعمال کرنا جائز ہے حالانکہ یہ چیزیں تقرب غیر اللہ کے لیے نامزد ہوجانے کی وجہ سے حرام ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قسم کی تعیینات اور تخصیصات کا حکم بیان فرمایا جو مشرکین نے اپنے زعم میں جائز کر رکھی تھیں۔ چناچہ فرمایا کہ جن حلال وطیب چیزوں کو تم نے اپنے طرف سے حرام کر رکھا ہے وہ حلال ہیں ان کو کھاو اور جو نذریں نیازیں تم نے غیر اللہ کی خوشنودی اور تعظیم کے لیے مقرر کر رکھی ہیں اور انہیں تم حلال سمجھتے ہو، وہ قطعاً حرام ہیں انہیں مت کھاؤ۔ چناچہ پہلے يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْاسے اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَتک تحریمات مشرکین یعنی تحریم لغیر اللہ کا حکم بیان کیا گیا ہے اور اِنَّمَا حَرَّمَسے لَفِيْ شِقَاقٍۢ بَعِيْدٍتک نذر لغیر اللہ کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ یہ آیت ان جانوروں کی حلت کا اعلان کرنے کے لیے نازل ہوئی جن کو بعض لوگوں نے بالکل حرام کر رکھا تھا۔ یعنی بحیرہ سائبہ وغیرہ قال ابن عباس ؓ نزلت الایۃ فی الذین حرموا علی انفسہم السوائب والوصائل والبحائر (کبیر ص 113 ج 2) انھا نزلت فی ثقیت وخزاعۃ وبنی مدلج فیما حرموہ علی انفسہم من الانعام (قرطبی ص 207 ج 2) اس آیت میں حلالاً طیباً سے وہ حلال جانور مراد ہیں جو مشرکین نے اپنی طرف سے حرام کر رکھے تھے مثلاً بحیر، سائبہ وغیرہ وقد فسرھا بعضھم بالبحیرۃ والسائبۃ والوصیلۃ والحام یعنی کلوا البحیرۃ واخواتھا ولا تاکلوا المیتۃ واخواتھا (تفسیر حمدی ص 37) اس مسئلہ کی مزید تحقیق سورة مائدہ رکوع نمبر 14 میں آئے گی۔ اس آیت سے تمام حلال اشیاء سے انتفاع کی اباحت ثابت ہوتی ہے۔ 308 خطوات خطوۃ کی جمع ہے یعنی نقوش قدم ای اثارہ کما حکی عن الخلیل (روح ص 29 ج 2) اور اس سے وہ تمام گمراہی کے طریقے مراد ہیں جو شیطان لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اختیار کرتا ہے۔ شیطان کے نقش قدم پر مت چلو۔ اور اس کے جاری کیے ہوئے طریقوں مثلاً تحریمات لغیر اللہ وغیرہ سے پرہیز کرو۔ وھی طرائقہ ومسال کہ فیما اضل اتباعہ فیہ من تحریم البحائر والسوائب والوصائل ونحوھا (ابن کثیر ص 203 ج 1) یہ شیطان سے نفر دلانے کے لیے فرمایا۔ یعنی شیطان تو تمہارا علانیہ دشمن ہے وہ ہمیشہ تمہیں ہلاکت وتباہی کی راہ ہی بتائیگا۔
Top