Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 156
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ
الَّذِيْنَ : وہ جو اِذَآ : جب اَصَابَتْهُمْ : پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالُوْٓا : وہ کہیں اِنَّا لِلّٰهِ : ہم اللہ کے لیے وَاِنَّآ : اور ہم اِلَيْهِ : اس کی طرف رٰجِعُوْنَ : لوٹنے والے
کہ جب پہنچے ان کو کچھ مصیبت تو کہیں ہم تو اللہ ہی کا مال ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانیوالے ہیں290
290 اگر تحویل قبلہ کے سلسلہ میں انہیں کوئی تکلیف پہنچ جائے تو وہ اس پر صبر کرتے ہیں۔ یہ الصابرین کی صفت ہے اور اس سے اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اجر وثواب کے مستحق صرف وہی صابر ہیں، جو مصیبت کی ابتداء میں صبر کرتے ہیں۔ لہذا جو لوگ نزول مصیبت کے وقت انتہائی بےصبر اور جزع وفزع کا اظہار کریں اور بعد میں صبر کریں، وہ اس اجر کے مستحق نہیں ہیں کیونکہ مصیبت کے بھول جانے پر تو صبر کرنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ چناچہ حدیث میں آیا ہے کہ اصل صبر جس پر اجر وثواب ملتا ہے وہ تو صدمہ کی ابتداء میں ہوتا ہے۔ اشارۃ الی ان الاجر لمن صبر وقت اصاب تھا کما فی الخبر انما الصبر عند اول صدمۃ (روح ص 23 ج 2) اس آیت سے معلوم ہوا کہ صبر تو یہ ہے کہ مصیبت کے وقت زبان سے واویلا اور جاہلیت کی باتیں کرنے کی بجائے انا للہ وانا الیہ راجعون کہنا چاہئے۔ یعنی ہم اللہ کے مملوک اور غلام ہیں وہ ہمارا مالک وآقا ہے۔ ہمارے امور میں اسے ہر قسم کے تصرف کا اختیار ہے اور ہم اسی کی طرف واپس جانے والے ہیں۔ دنیا میں اگرچہ ہم مصائب میں مبتلا رہے ہیں اور کفار کی ایذائیں سہی ہیں۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ ہمیں چین و آرام عنایت فرمائیگا پہلے حصہ میں بندگی اور مملوکیت کا اعتراف ہے اور دوسرے حصہ میں بعث بعد الموت کا اقرار ہے۔ وللہ معناہ الاقرار بالملک والعبودیۃ للہ فھو المتصرف فینا بما یرید من الامور وانا الیہ راجعون اقرار بالبعث (اُولئِک یہ مذکورہ بالا صابرین کی طرف اشارہ ہے یعنی جو لوگ مصیبت کے وقت اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ۔ کہتے ہیں۔ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ۔ صلوٰت صلوۃ کی جمع ہے جس سے دنیا وآخرت میں اللہ کی عفو و درگذر، رحمت و برکت، اور اس کا اعزاز واکرام مراد ہے۔ وصلوۃ اللہ علی عبدہ عفوہ ورحمتہ وبرکتہ و تشریفہ ایاہ فی الدنیا والاخرۃ (قرطبی ص 177 ج 2) اور رحمۃ کا لفظ تاکید اور مزید تعمیم کے لیے ہے۔ یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت ومغفرت اور اس کی عنایات خاصہ کے مستحق ہوں گے۔ ۣوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُهْتَدُوْنَ ۔ یہاں مہتدون سے فائزون مراد ہے۔ کیونکہ جن لوگوں کی خدا نے صفائی دیدی اور انہیں اپنی رحمت خاصہ سے نواز دیا ان سے بڑھ کر کون کامیاب ہے۔ والمعنی اولئک ھم الفائزون بمطالبھم الدینیۃ والدنیوۃ فان من نال تزکیۃ اللہ تعالیٰ ورحمتہ لم یفتہ مطلب (روح ص 24 ج 2)
Top