Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 138
صِبْغَةَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً١٘ وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ
صِبْغَةَ : رنگ اللہِ : اللہ وَمَنْ : اور کس کا اَحْسَنُ : اچھا ہے مِنَ اللہِ : اللہ سے صِبْغَةً : رنگ وَنَحْنُ لَهُ : اور ہم اس کی عَابِدُوْنَ : عبادت کرنے والے
ہم نے قبول کرلیا رنگ اللہ کا262 اور کس کا رنگ بہتر ہے اللہ کے رنگ سے263 اور ہم اسی کی بندگی کرتے ہیں
262 یہ منصوب ہے اور اس کا عامل محذوف ہے۔ قُولُوْا اٰمَنا کی مناسبت سے یہاں قَبِلْنَا کو حذف ماننا زیادہ موزوں ہے۔ ای قبلنا صِبْغۃَ اللہِ اور صِبْغَۃَ اللہِ سے سے مراد دین توحید اور ملت حصہ ہے۔ نصرانی اپنے بچوں اور ان کے مذہب میں داخل ہونے والوں کو ایک خاص قسم کے زرد رنگ میں نہلایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اب یہ پاکیزہ اور پکا نصرانی بن گیا ہے اور گناہوں سے پاک ہوگیا ہے اس فعل کو وہ ھمیسھ کہتے ہیں تو اس کے جواب میں مسلمانوں کو ارشاد ہوا کہ تم کہو کہ ہم نے تو اللہ کے دین اور اس کی توحید کا رنگ قبول کرلیا ہے۔ جس سے ہر قسم کی نجاست دور ہوجاتی ہے۔263 یہاں استفہام انکار کے لیے ہے یعنی اللہ کے رنگ سے کسی کا رنگ اچھا نہیں اللہ کا رنگ تو اسلام اور توحید کا رنگ ہے۔ جسے قبول کرلینے سے ظاہر و باطن طاہر وطیب ہوجاتا ہے۔ اور اس مصنوعی اور بناوٹی رنگ میں یہ خوبی کہاں ؟ وَنَحْنُ لَہُ عَابِدُوْنَ ۔ ہم نے اللہ کے دین اور توحید کے رنگ کو قبول کرلیا ہے۔ اس لیے ہم تو ہر قسم کی عبادت صرف اللہ ہی کے لیے بجا لائیں گے۔ تمام مالی، بدنی اور زبانی عبادتیں اسی کے ساتھ مخصوص کریں گے۔ اسی کی تہذیبیں منتیں دیں گے۔ اسی کے سامنے سجدہ کریں گے۔ اور اسی کو پکاریں گے۔ یہ جملہ ماقبل کا خلاصہ اور مقصود ہے۔
Top