Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 130
وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ١ؕ وَ لَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا١ۚ وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمَنْ : اور کون يَرْغَبُ : منہ موڑے عَنْ مِلَّةِ : دین سے اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم اِلَّا مَنْ : سوائے اس کے سَفِهَ : بیوقوف بنایا نَفْسَهُ : اپنے آپ کو وَ لَقَدِ : اور بیشک اصْطَفَيْنَاهُ : ہم نے اس کو چن لیا فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَاِنَّهُ : اور بیشک فِي الْآخِرَةِ : آخرت میں لَمِنَ : سے الصَّالِحِينَ : نیکو کار
اور کون ہے جو پھرے ابراہیم کے مذہب سے مگر وہی کہ جس نے احمق بنایا اپنے آپ249 کو اور بیشک ہم نے ان کو منتخب کیا دنیا میں اور وہ آخرت میں نیکوں میں ہیں
249 رغب کا صلہ جب عن آتا ہے تو اس کے معنی اعراض کے ہوتے ہیں۔ سَفِهَ نَفْسَهٗکے معنی ہیں جعلھا مھانۃ ذلیلۃ (روح ص 387 ج 1) یعنی جس نے اپنے آپ کو شرک و بدعت کی وجہ سے ذلیل و خوار کر رکھا ہو۔ اور یا اس کے معنی ہیں خسر نفسہ (بحر ص 394 ج 1، معالم ص 96 ج 1) یعنی جس نے اپنے آپ کو شرک کی وجہ سے خسارے میں ڈال رکھا ہو یا اس کے معنی حمق رایہ کے ہیں (ایضاً ) یعنی جس کی رائے احمقانہ ہو اور وہ بیوقوف ہو مطلب یہ ہے کہ ملت ابراہیمی تو سراسر اخلاص و توحید سے لبریز ہے اور اس کے تمام احکام عقل و فطرت کے مطابق ہیں اس لیے ایسی ملت سے صرف وہی اعراض کرسکتا ہے جو شرک میں ڈوبا ہوا ہو یا جس کی عقل میں فتور ہو۔ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنٰهُ فِي الدُّنْيَا۔ اسی ملت وحدت اور دین توحید کی پیروی کی بنا پر تو ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں سب کی پیشوائی کے لیے منتخب کیا تھا وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ ۔ صالح فی الآخرت کے معنی ہیں کامیاب اور فائز المرام۔ الصالح فی الاخرۃ ھو الفائ (قرطبی ص 133 ج 2) ملت ابراہیمی ایک ایسی چیز ہے جس کے اتباع کی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کمالات دنیویہ اور مقاصد اخرویہ حاصل ہوئے لہذا ایسی ملت سے اعراض کرنے والا شخص یقیناً سر پرا اور احمق ہے۔ امام قتادہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں جنہوں نے ملت ابراہیمی کو چھوڑ کر یہودیت ونصرانیت اختیار کی۔ (قرطبی ص 132 ج 2) اور اپنے بزرگوں کو خدا کا شریک ونائب ٹھہرایا اور انہیں حاجات میں غائبانہ پکارنے لگے۔ نیز ان مشرکوں کا رد ہے جنہوں نے ابراہیمی ہونے کے دعویٰ کے ساتھ ساتھ اللہ کی توحید سے بغاوت کی اور اس کے ساتھ شرک کیا (ابن کثیر ص 185 ج 1) اب آگے ملت ابراہیمی کی امتیازی خصوصیت اور اس کے خصوصی وصف یعنی توحید کا بیان ہے۔
Top