Jawahir-ul-Quran - Al-Hijr : 72
لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
لَعَمْرُكَ : تمہاری جان کی قسم اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَفِيْ : البتہ میں سَكْرَتِهِمْ : اپنے نشہ يَعْمَهُوْنَ : مدہوش تھے
قسم ہے تیری جان کی24 وہ اپنی مستی میں مدہوش ہیں
24:۔ یہ ادخال الٰہی ہے۔ جملہ قسمیہ ہے ” لَعَمْرُکَ “ مبتدا ہے اور قسمی اس کی خبر وجوبًا محذوف ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی زندگانی کی قسم کھائی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ساری مخلوق میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے زیادہ مکرم و محترم کوئی شخصیت پیدا نہیں فرمائی اورحضور ﷺ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی زندگی کی قسم نہیں کھائی۔ ماخلق اللہ تعالیٰ و ما ذرا و ما برا نفساً اکرم علیہ من محمد ﷺ وما سمعت اللہ سبحانہ اقسم بحیاۃ احد غیرہ (روح) میرے پیغمبر مجھے تیری زندگانی کی قسم وہ اپنی گمراہی میں مست اور سرگرداں تھے یا یہ فرشتوں کا قول ہے اور حضرت لوط (علیہ السلام) سے خطاب ہے۔ حضرت شیخ قدس سرہ نے فرمایا مقسم بہ یعنی جس چیز کی قسم کھائی جائے اس کے اعتبار سے قسم کی چار قسمیں ہیں۔ (1) یہ کہ مقسم بہ کو عالم الغیب اور قادر و متصرف سمجھ کر اس کی قسم کھائے اور یہ عقیدہ ہو کہ وہ میرے حال سے واقف ہے اگر میں نے اس قسم کو توڑا تو وہ مجھے ضرر اور نقصان پہنچانے پر قادر ہے غیر خدا کی اس نیت سے قسم کھانا شرک ہے۔حضور ﷺ نے غیر اللہ کی اسی نوع کی قسم کو شرک قرار دیا ہے۔ من حلف بغیر اللہ فقد اشرک۔ (2) وہ قسم جس میں مقسم بہ کو بطور دلیل و شاہد پیش کرنا مقصود ہو قرا ان مجید کی اکثر و بیشتر قسمیں اسی نوع کی ہیں مثلاً ” وَ الْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ “ مندرجہ ذیل مصرع میں بھی اسی نوع کی قسم ہے۔ ع۔ قسم بلب مے گون تو وزلف شبگونِ تو کہ تو محبوب دلربائی۔ یہ قسم غیر اللہ کی جائز ہے۔ (2) یہ کہ مثلاً یوں کہے کہ اگر میں جھوٹ بولوں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے فلاں نعمت چھین لے۔ جیسا کہ حضرت حسان بن ثابت ؓ نے مشرکین کے مقابلے میں فرمایا تھا۔ ثکلت بنیتی ان لم تروھا۔ تثیر النقع من طرفی کداء۔ (ترجمہ میری بیٹی مرے اگر تم ان (ہمارے گھوڑوں کو کداء پہاڑ کی جانب سے گرد اڑاتے ہوئے (مکہ کو فتح کرنے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہوتے ہوئے) نہ دیکھو) ۔ چناچہ فتح مکہ کے دنحضور ﷺ نے فرمایا فوج اسلام کداء پہاڑ کی جانب سے مکہ میں داخل ہو تاکہ حسان کی قسم پوری ہوجائے۔ اس سے معلوم ہوا کہحضور ﷺ نے ثکلت بنیتی کو قسم کقرار دیا ہے۔ (4) یہ کہ قسم سے دعاء مقصود ہو مثلاً کوئی شخص اپنے محبوب کو اعتماد میں لینے کے لیے یوں کہنے کے بجائے کہ اگر میں جھوٹ بولوں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے تجھ ایسا دلربا محبوب چھین لے، اس طرح قسم کھائے کہ مجھے تیری زندگانی کی قسم میں سچ کہہ رہا ہوں یعنی خدا کرے تو زندہ رہے اور تیری زندگانی مجھے بہت محبوب ہے۔ ” لَعَمْرُکَ “ اسی نوع کی قسم ہے۔
Top