Jawahir-ul-Quran - Al-Hijr : 30
فَسَجَدَ الْمَلٰٓئِكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ
فَسَجَدَ : پس سجدہ کیا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتوں (جمع) كُلُّهُمْ : وہ سب اَجْمَعُوْنَ : سب کے سب
تب سجدہ کیا ان فرشتوں نے سب نے مل کر14
14:۔ تمام فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا مگر ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اس لیے آدم کے ساتھ اس کی دشمنی ظاہر ہے۔ ” اِلَّا اِبْلِیْسَ “ مستثنیٰ منقطع ہے کیونکہ ابلیس فرشتہ نہیں تھا بلکہ جن تھا جیسا کہ سورة کہف رکوع 7 میں ہے ” کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ “ اس پر اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اگر ابلیس فرشتہ نہیں تھا تو سجدہ نہ کرنے سے نافرمان کیوں ٹھہرا کیونکہ سجدہ کا حکم تو فرشتوں کو دیا گیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ابلیس چونکہ فرشتوں میں رہتا تھا اور زہد و عبادت کی وجہ سے مرتبہ میں فرشتوں سے بھی بلند تھا اس لیے تغلیباً اسے بھی فرشتوں میں شمار کیا گیا اس طرح فرشتوں کے ساتھ وہ بھی مامور تھا۔ کان جن یا مفردا مغمورا بالوف من الملائکۃ فعد منھم تگلیبا (روح ج 14 ص 46) ۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں ابلیس کو بھی سمجدہ کا باقاعدہ حکم ہوا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” یَا اِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ لَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ “ (اعراف رکوع 2) ۔ لیکن یہاں تعبیر میں اس کا ذکر ترک کردیا گیا ہے جیسا کہ کوئی واعظ کہے میں نے فلاں شہر والوں کو مسئلہ توحید سنایا تو انہوں نے مان لیا مگر فلاں شہر والوں کو وعظ کرنے کا ذکر حذف کردیا اسی طرح یہاں ابلیس کو سجدہ کرنے کا حکم تعبیر میں ھذف کردیا گیا ہے۔
Top