Jawahir-ul-Quran - Al-Hijr : 2
رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ
رُبَمَا : بسا اوقات يَوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جو کافر ہوئے لَوْ كَانُوْا : کاش وہ ہوتے مُسْلِمِيْنَ : مسلمان
کسی وقت آرزو کریں گے یہ لوگ جو منکر ہیں3 کیا اچھا ہوتا جو ہوتے مسلمان
3:۔ تمہید کے بعد اصل مقصود کا ذکر کیا گیا۔ سورة ابراہیم میں وقائع امم سابقہ زکر کردئیے گئے ہیں تاکہ تم ان سے عبرت حاصل کرو اور عذاب کے ڈر سے مسئلہ مان لو اس لیے اب وقت ہے ضد و انکار سے باز آجاؤ اور مسئلہ قبول کرلو ورنہ پچھتاؤ گے جیسا کہ بہت بار ایسا ہوچکا ہے اقوام گذشتہ کے کفار و مشرکین جب دیکھتے کہ کفر و انکار اور ضد وعناد کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہے اور ایمان والے اس سے بچ گئے ہیں تو وہ حسرت و افسوس سے کہنے لگتے کاش ہم نے بھی مسئلہ توحید مان لیا ہوتا تو آج ہم بھی اس عذاب سے بچ جاتے مگر اس وقت کے پچھتانے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
Top