Jawahir-ul-Quran - Al-Hijr : 14
وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْهِ یَعْرُجُوْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر فَتَحْنَا : ہم کھول دیں عَلَيْهِمْ : ان پر بَابًا : کوئی دروازہ مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَظَلُّوْا : وہ رہیں فِيْهِ : اس میں يَعْرُجُوْنَ : چڑھتے
اور اگر ہم8 کھول دیں ان پر دروازہ آسمان سے اور سارے دن اس میں چڑھتے رہیں
8:۔ یہ زجر ہے جو شکوہ مذکورہ سے متعلق ہے اس میں مشرکین مکہ کے انتہائی عناد و الحاد کا ذکر کیا گیا ہے۔ مشرکین کا مطالبہ تھا کہ اگر فرشتے محمد ﷺ کی رسالت کی تصدیق کردیں تو ہم مان لیں گے فرمایا فرشتوں کا نازل کرنا بےسود ہے کیونکہ ان معاندین کا عناد اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ فرشتے نازل کرنا تو ایک طرف اگر ہم آسمان میں ایک دروازہ کھول دیں اور یہ مشرکین اس میں سے اوپر چرھ جائیں اور ملکوت سمٰوات کا اپنے سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیں، وہاں فرشتوں کو دیکھ لیں اور پوری حقیقت واضح اور روشن ہو کر ان کے سامنے آجائے تو بھی یہ لوگ نہیں مانیں گے اور فرط تعصب وعناد کی وجہ سے پھر بھی یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے کہ ہمیں یہ ساری چیزیں نظر آرہی ہیں حالانکہ حقیقت میں کچھ نہیں۔ لقالوا الفرط عنادھم و غلوھم فی المکابرۃ الخ (روح ج 14 ص 20) ۔ جیسا کہ سورة رعد رکوع 4 میں مشرکین کے عناد و مکابرہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ ” وَ لَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُیِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ کُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰی اي لا یؤمنون “۔
Top