Tafseer-e-Jalalain - Nooh : 3
اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَطِیْعُوْنِۙ
اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ : کہ عبادت کرو اللہ کی وَاتَّقُوْهُ : اور ڈرو اس سے وَاَطِيْعُوْنِ : اور اطاعت کرو میری
کہ خدا کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اور میرا کہنا مانو
ان اعبدوا اللہ واتقوہ و اطیعون حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی تبلیغ کا آغاز ان تین باتوں سے فرمایا ایک یہ کہ اللہ بندگی، دوسرے تقویٰ ، تیسرے رسول کی اطاعت، مطلب یہ کہ اگر تم ان تین باتوں کو قبول کرلو تو اب تک جو گناہ تم سے ہوچکے ہیں ان سے وہ درگزر فرمائے گا، یغفرلکم من ذنوبکم و یوخر کم الی اجل مسمی الخ میں بعض مفسرین نے حقوق العباد کو خارج کرنے کے لئے من کو تبعیض کا لیا ہے، اسلام اور ایمان لانے سے حقوق اللہ معاف ہوجائیں گے مگر حقوق العباد سے معافی کے لئے صاحب حق سے معافی ضروری ہوگی، بعض مفسرن نے یہاں من زائدہ یا بمعنی عن لیا ہے مطلب یہ کہ ایمان لانے سے تمہارے سب گناہ معاف ہوجائیں گے مگر دوسری نصوص کی بنا پر شرط مذکور بہرحال ضروری ہے۔ یعنی اگر تم نے یہ تینوں باتیں مان لیں تو تمہیں دنیا میں اس وقت تک بلا عذاب جیتنے کی مہلت دے دی جائے گی جو اللہ تمہاری طبعی موت کے لئے مقرر کی ہے یعنی مقررہ مدت عمر سے پہلے کسی دنیاوی عذاب میں پکڑ کر ہلاک نہ کرے گا، اس کا حاصل یہ ہوا کہ اگر ایمان نہ لائے تو یہ بھی ممکن ہے کہ مدت مقررہ سے پہلے ہی تم پر عذاب لا کر ہلاک کر دے، معلوم ہوا کہ عمر کی مدت مقررہ میں بعض اوقات کوئی شرط ہوتی ہے کہ اس نے فلاں کام کرلیا تو اس کی عمر مثلاً اسی سال ہوگی اور نہ کیا تو ساٹھ سال ہوگی اعمال صالحہ سے عمر کے بڑھنے اور نافرمانی کے کاموں کی وجہ سے عمر کے گھٹنے کا یہی مطلب ہے۔ (معارف ملخصًا) اس سے معلوم ہوا کہ تقدیر الٰہی کی دو قسمیں ہیں : (1) معلق اور (2) مبرم۔ ان دونوں تقدیروں کی طرف قرآن کریم میں اشارہ موجود ہے ” یمحوا اللہ ما یشآء و یثبت و عندہ ام الکتاب “ یعنی اللہ تعالیٰ لوح محفوظ میں اثبات یعنی ترمیم و تبدیل کرتا رہتا ہے اور اللہ کے پاس اصل کتاب ہے، اصل کتاب سے مراد وہ کتاب جس میں تقدیر معلق لکھی ہوئی ہے کیونکہ تقدیر معلق میں جو شرط پوری کرے گا یا نہیں اس لئے تقدیر مبرم میں قطعی فیصلہ لکھا جاتا ہے۔ (معارف) حضرت ابن عباس ؓ کی روایت کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) کو چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی اور قرآن کی تصریح کے مطابق نو سو پچاس سال اپنی قوم کو تبلیغ کی اور طوفان کے بعد ساٹھ سال بقید حیات رہے، اس حساب سے آپ کی عمر ایک ہزار پچاس سال ہوئی، حضرت آدم (علیہ السلام) کی وفات اور ولادت نوح (علیہ السلام) کے درمیان 102 سال کا فاصلہ ہے اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی عمر 930 سال ہوئی ہے۔ (قصص القرآن، حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوھاروی (رح) تعالیٰ )
Top